سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: بارش طلب کرنے کے احکام و مسائل
The Book of Praying for Rain (Al-Istisqa')
17. بَابُ : مَسْأَلَةِ الإِمَامِ رَفْعَ الْمَطَرِ إِذَا خَافَ ضَرَرَهُ
17. باب: جب بارش سے نقصان کا ڈر ہو تو امام۔
Chapter: Imam asking for rain to be stopped if he fears that it may cause harm
حدیث نمبر: 1528
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا حميد، عن انس، قال: قحط المطر عاما، فقام بعض المسلمين إلى النبي صلى الله عليه وسلم في يوم جمعة , فقال: يا رسول الله , قحط المطر واجدبت الارض وهلك المال , قال:" فرفع يديه وما نرى في السماء سحابة، فمد يديه حتى رايت بياض إبطيه يستسقي الله عز وجل" , قال: فما صلينا الجمعة حتى اهم الشاب القريب الدار الرجوع إلى اهله فدامت جمعة، فلما كانت الجمعة التي تليها , قالوا: يا رسول الله , تهدمت البيوت واحتبس الركبان , قال:" فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم لسرعة ملالة ابن آدم وقال بيديه:" اللهم حوالينا ولا علينا فتكشطت عن المدينة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قال: قَحَطَ الْمَطَرُ عَامًا، فَقَامَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَحَطَ الْمَطَرُ وَأَجْدَبَتِ الْأَرْضُ وَهَلَكَ الْمَالُ , قَالَ:" فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ سَحَابَةً، فَمَدَّ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ يَسْتَسْقِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ" , قَالَ: فَمَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ حَتَّى أَهَمَّ الشَّابَّ الْقَرِيبَ الدَّارِ الرُّجُوعُ إِلَى أَهْلِهِ فَدَامَتْ جُمُعَةٌ، فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الَّتِي تَلِيهَا , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ وَاحْتَبَسَ الرُّكْبَانُ , قَالَ:" فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسُرْعَةِ مَلَالَةِ ابْنِ آدَمَ وَقَالَ بِيَدَيْهِ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَتَكَشَّطَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سال بارش نہیں ہوئی تو کچھ مسلمان جمعہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی ہے، زمین سوکھ گئی ہے، اور جانور ہلاک ہو گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، اور اس وقت آسمان میں ہمیں بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو خوب دراز کیا یہاں تک کہ مجھے آپ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی، آپ اللہ تعالیٰ سے پانی برسنے کے لیے دعا کر رہے تھے۔ ابھی ہم جمعہ کی نماز سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے (کہ بارش ہونے لگی) یہاں تک کہ جس جوان کا گھر قریب تھا اس کو بھی اپنے گھر جانا مشکل ہو گیا، اور برابر دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی، جب اگلا جمعہ آیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اور سوار محبوس ہو کر رہ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن آدم (انسان) کے جلد اکتا جانے پر مسکرائے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا» اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 596)، مسند احمد 3/104 (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 1505
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر، عن انس بن مالك، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا رسول الله، هلكت المواشي وانقطعت السبل فادع الله عز وجل، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فمطرنا من الجمعة إلى الجمعة، فجاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، تهدمت البيوت وانقطعت السبل وهلكت المواشي، فقال:" اللهم على رءوس الجبال والآكام وبطون الاودية ومنابت الشجر , فانجابت عن المدينة انجياب الثوب".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَتِ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمُطِرْنَا مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ وَهَلَكَتِ الْمَوَاشِي، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ وَالْآكَامِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ , فَانْجَابَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ انْجِيَابَ الثَّوْبِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! چوپائے ہلاک ہو گئے، (اور پانی نہ ہونے سے) راستے (سفر) ٹھپ ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، تو جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی، تو پھر ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر منہدم ہو گئے، راستے (سیلاب کی وجہ سے) کٹ گئے، اور جانور مر گئے، تو آپ نے دعا کی: «اللہم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر» اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ٹیلوں، نالوں اور درختوں پر برسا تو اسی وقت بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گئے جیسے کپڑا (اپنے پہننے والے سے اتار دینے پر الگ ہو جاتا ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستسقاء 6 (1013)، 7 (1014)، 9 (1016)، 10 (1017)، 12 (1019)، صحیح مسلم/الإستسقاء 2 (897)، سنن ابی داود/الصلاة 260 (1175)، (تحفة الأشراف: 906)، موطا امام مالک/الإستسقاء 2 (3)، مسند احمد 3/4 10، 182، 194، 245، 261، 271 ویأتی عند المؤلف بأرقام: 1516، 1519 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1514
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني شعيب بن يوسف، عن يحيى بن سعيد القطان، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" لا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء، فإنه كان يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنَ الدُّعَاءِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے استسقاء کے اپنے دونوں ہاتھ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے، آپ اس میں اپنے دونوں ہاتھ اتنا بلند کرتے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإستسقاء 22 (1031)، المناقب 23 (3565)، الدعوات 23 (6341)، صحیح مسلم/الإستسقاء 1 (895)، سنن ابی داود/الصلاة 260 (1170)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 118 (1180)، (تحفة الأشراف: 1168)، مسند احمد 3/ 181، 282، سنن الدارمی/الصلاة 189 (1576) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1516
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن حماد، قال: حدثنا الليث، عن سعيد وهو المقبري، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر، عن انس بن مالك، انه سمعه، يقول: بينا نحن في المسجد يوم الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، تقطعت السبل وهلكت الاموال واجدب البلاد، فادع الله ان يسقينا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه حذاء وجهه، فقال:" اللهم اسقنا"، فوالله ما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المنبر حتى اوسعنا مطرا وامطرنا ذلك اليوم إلى الجمعة الاخرى، فقام رجل لا ادري هو الذي قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم استسق: لنا ام لا، فقال: يا رسول الله، انقطعت السبل وهلكت الاموال من كثرة الماء، فادع الله ان يمسك عنا الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم حوالينا ولا علينا ولكن على الجبال ومنابت الشجر"، قال: والله ما هو إلا ان تكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك تمزق السحاب حتى ما نرى منه شيئا.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَقَطَّعَتِ السُّبُلُ وَهَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَأَجْدَبَ الْبِلَادُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حِذَاءَ وَجْهِهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا"، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِنْبَرِ حَتَّى أُوسِعْنَا مَطَرًا وَأُمْطِرْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، فَقَامَ رَجُلٌ لَا أَدْرِي هُوَ الَّذِي قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقِ: لَنَا أَمْ لَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْقَطَعَتِ السُّبُلُ وَهَلَكَتِ الْأَمْوَالُ مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُمْسِكَ عَنَّا الْمَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا وَلَكِنْ عَلَى الْجِبَالِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ"، قَالَ: وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ تَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ تَمَزَّقَ السَّحَابُ حَتَّى مَا نَرَى مِنْهُ شَيْئًا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ کے روز مسجد میں تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! راستے (سفر) ٹھپ ہو گئے، جانور ہلاک ہو گئے، اور علاقے خشک سالی کا شکار ہو گئے، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے کے بالمقابل اٹھایا، پھر آپ نے دعا کی: «اللہم اسقنا» اے اللہ! ہمیں سیراب کر تو قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر سے اترے بھی نہ تھے کہ زور دار بارش ہونے لگی، اور اس دن سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ چنانچہ پھر ایک آدمی کھڑا ہوا (مجھے یاد نہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے لیے دعا کرنے کے لیے کہا تھا یا کوئی دوسرا شخص تھا) اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پانی کی زیادتی کی وجہ سے راستے بند ہو گئے ہیں، اور جانور ہلاک ہو گئے ہیں، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ (اب) ہم سے بارش روک لے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا ولكن على الجبال ومنابت الشجر» اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا، ہم پر نہ برسا، اور پہاڑوں پر اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! آپ کا یہ کہنا ہی تھا کہ بادل پھٹ پھٹ کر (آسمان صاف ہو گیا) یہاں تک کہ ہمیں اس میں سے کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1505 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 1517
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثني ابو هشام المغيرة بن سلمة، قال: حدثني وهيب، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" اللهم اسقنا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنِي وُهَيْبٌ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: «اللہم اسقنا» اے اللہ! ہمیں سیراب فرما۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1666) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1518
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا المعتمر، قال: سمعت عبيد الله بن عمر وهو العمري، عن ثابت، عن انس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة، فقام إليه الناس فصاحوا، فقالوا: يا نبي الله، قحطت المطر وهلكت البهائم، فادع الله ان يسقينا، قال:" اللهم اسقنا اللهم اسقنا" , قال: وايم الله ما نرى في السماء قزعة من سحاب , قال: فانشات سحابة فانتشرت، ثم إنها امطرت ونزل رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى وانصرف الناس، فلم تزل تمطر إلى يوم الجمعة الاخرى، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب صاحوا إليه، فقالوا: يا نبي الله، تهدمت البيوت وتقطعت السبل، فادع الله ان يحبسها عنا، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" اللهم حوالينا ولا علينا"، فتقشعت عن المدينة فجعلت تمطر حولها وما تمطر بالمدينة قطرة، فنظرت إلى المدينة وإنها لفي مثل الإكليل.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قال: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَامَ إِلَيْهِ النَّاسُ فَصَاحُوا، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَحَطَتِ الْمَطَرُ وَهَلَكَتِ الْبَهَائِمُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا، قَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا" , قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً مِنْ سَحَابٍ , قَالَ: فَأَنْشَأَتْ سَحَابَةٌ فَانْتَشَرَتْ، ثُمَّ إِنَّهَا أُمْطِرَتْ وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى وَانْصَرَفَ النَّاسُ، فَلَمْ تَزَلْ تَمْطُرُ إِلَى يَوْمِ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ صَاحُوا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ وَتَقَطَّعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَحْبِسَهَا عَنَّا، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا"، فَتَقَشَّعَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ فَجَعَلَتْ تَمْطُرُ حَوْلَهَا وَمَا تَمْطُرُ بِالْمَدِينَةِ قَطْرَةً، فَنَظَرْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ وَإِنَّهَا لَفِي مِثْلِ الْإِكْلِيلِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ کچھ لوگ آپ کی طرف اٹھ کر بڑھے، اور چلا کر کہنے لگے: اللہ کے نبی! بارش نہیں ہو رہی ہے، اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ تو آپ نے دعا کی: «اللہم اسقنا اللہم اسقنا» اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اس وقت ہم کو آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آ رہا تھا (مگر آپ کے دعا کرتے ہی) بدلی اٹھی، اور پھیل گئی، پھر برسنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے، اور آپ نے نماز پڑھی، اور لوگ فارغ ہو کر پلٹے تو دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ تو دوسرے جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے، تو لوگ پھر چلا کر کہنے لگے: اللہ کے نبی! گھر گر گئے، راستے ٹھپ ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ اب اسے ہم سے روک لے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور آپ نے دعا فرمائی: «اللہم حوالينا ولا علينا» اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا ہم پر نہ برسا تو بادل مدینہ سے چھٹ گئے، اور اس کے اطراف میں برسنے لگے، اور مدینہ میں ایک بوند بارش کی نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے مدینہ کو دیکھا کہ وہ ایسا لگ رہا تھا گویا وہ تاج پہنے ہوئے ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإستسقاء 14 (1021)، صحیح مسلم/الإستسقاء 2 (897)، (تحفة الأشراف: 456) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1519
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال: حدثنا شريك بن عبد الله، عن انس بن مالك، ان رجلا دخل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب، فاستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما، وقال: يا رسول الله، هلكت الاموال وانقطعت السبل، فادع الله ان يغيثنا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، ثم قال:" اللهم اغثنا اللهم اغثنا"، قال انس: ولا والله ما نرى في السماء من سحابة ولا قزعة وما بيننا وبين سلع من بيت ولا دار فطلعت سحابة مثل الترس، فلما توسطت السماء انتشرت وامطرت، قال انس: ولا والله ما راينا الشمس سبتا، قال: ثم دخل رجل من ذلك الباب في الجمعة المقبلة ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب فاستقبله قائما، فقال: يا رسول الله صلى الله وسلم عليك، هلكت الاموال وانقطعت السبل، فادع الله ان يمسكها عنا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، فقال:" اللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب وبطون الاودية ومنابت الشجر" قال: فاقلعت وخرجنا نمشي في الشمس , قال شريك: سالت انسا اهو الرجل الاول؟ قال: لا.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، قال: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُغِيثَنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَغِثْنَا اللَّهُمَّ أَغِثْنَا"، قَالَ أَنَسٌ: وَلَا وَاللَّهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابَةٍ وَلَا قَزَعَةٍ وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ فَطَلَعَتْ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ، فَلَمَّا تَوَسَّطَتِ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ وَأَمْطَرَتْ، قَالَ أَنَسٌ: وَلَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سَبْتًا، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ عَلَيْكَ، هَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُمْسِكَهَا عَنَّا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ" قَالَ: فَأَقْلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ , قَالَ شَرِيكٌ: سَأَلْتُ أَنَسًا أَهُوَ الرَّجُلُ الْأَوَّلُ؟ قَالَ: لَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مال (جانور) ہلاک ہو گئے، اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی: «اللہم أغثنا اللہم أغثنا» اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! ہم کو آسمان میں کہیں بادل یا بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور ہمارے اور سلع پہاڑی کے بیچ کسی گھر یا مکان کی آڑ نہ تھی، اتنے میں ڈھال کے مانند بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا، پھر جب وہ آسمان کے درمیان میں پہنچا تو پھیل گیا، اور برسنے لگا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر اگلے جمعہ میں اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ آپ کی طرف چہرہ کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کا سلام و صلاۃ (درود و رحمت) ہو آپ پر! مال ہلاک ہو گئے (جانور مر گئے)، اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہم سے اسے روک لے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا اللہم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر» اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہ برسا، اے اللہ! ٹیلوں، چوٹیوں، گھاٹیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا یہ کہنا تھا کہ بادل چھٹ گئے، اور ہم نکل کر دھوپ میں چل رہے تھے۔ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا یہ وہی پہلا شخص تھا، تو انہوں نے کہا: نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1505 (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں جزم ہے، اور اس سے پہلے ایک روایت گزر چکی ہے اس میں ہے کہ انہوں نے کہا «لا أدری ہو الذی قال لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استسق لنا أم لا» دونوں میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ شاید انہیں بھول جانے کے بعد یاد آیا ہو، یا یاد رہا ہو پھر بھول گئے ہوں یا «لا» یہاں «لا أدری» کے معنی میں ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1529
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمود بن خالد، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: انبانا ابو عمرو الاوزاعي، عن إسحاق بن عبد الله، عن انس بن مالك، قال: اصاب الناس سنة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب على المنبر يوم الجمعة فقام اعرابي , فقال: يا رسول الله , هلك المال وجاع العيال فادع الله لنا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه وما نرى في السماء قزعة، والذي نفسي بيده , ما وضعها حتى ثار سحاب امثال الجبال، ثم لم ينزل عن منبره حتى رايت المطر يتحادر على لحيته، فمطرنا يومنا ذلك ومن الغد والذي يليه حتى الجمعة الاخرى، فقام ذلك الاعرابي او قال غيره , فقال: يا رسول الله , تهدم البناء وغرق المال فادع الله لنا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه , فقال:" اللهم حوالينا ولا علينا" , فما يشير بيده إلى ناحية من السحاب إلا انفرجت , حتى صارت المدينة مثل الجوبة وسال الوادي , ولم يجئ احد من ناحية إلا اخبر بالجود".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: أَصَابَ النَّاسُ سَنَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَلَكَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , مَا وَضَعَهَا حَتَّى ثَارَ سَحَابٌ أَمْثَالُ الْجِبَالِ، ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَلِكَ وَمِنَ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيهِ حَتَّى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، فَقَامَ ذَلِكَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ غَيْرُهُ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا" , فَمَا يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ , حَتَّى صَارَتِ الْمَدِينَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي , وَلَمْ يَجِئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا أَخْبَرَ بِالْجَوْدِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کو قحط سالی سے دو چار ہونا پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک اعرابی (بدو) کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مال (جانور) ہلاک ہو گئے، اور بال بچے بھوکے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اس وقت ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں کو ابھی نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ بادل پہاڑ کے مانند امنڈنے لگا، اور آپ ابھی اپنے منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے دیکھا بارش کا پانی آپ کی داڑھی سے ٹپک رہا ہے، ہم پر اس دن، دوسرے دن اور اس کے بعد والے دن یہاں تک کہ دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی، تو وہی اعرابی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! عمارتیں منہدم ہو گئیں، اور مال و اسباب ڈوب گئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اور آپ نے یوں دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا» اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ سے بادل کی جانب جس طرف سے بھی اشارہ کیا، وہ وہاں سے چھٹ گئے یہاں تک کہ مدینہ ایک گڈھے کی طرح لگنے لگا، اور وادی پانی سے بھر گئی، اور جو بھی کوئی کسی طرف سے آتا یہی بتاتا کہ خوب بارش ہوئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 35 (933)، الإستسقاء 11 (1018)، 24 (1032)، صحیح مسلم/الإستسقاء 2 (897)، (تحفة الأشراف: 174)، مسند احمد 3/256 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1749
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا عبد الرحمن، عن شعبة، عن ثابت البناني، عن انس، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء" , قال شعبة: فقلت لثابت: انت سمعته من انس؟، قال: سبحان الله , قلت: سمعته قال: سبحان الله.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ" , قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لِثَابِتٍ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ أَنَسٍ؟، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ , قُلْتُ: سَمِعْتَهُ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے ثابت سے پوچھا: آپ نے اسے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: سبحان اللہ، میں نے کہا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الاستسقاء 1 (895)، (تحفة الأشراف: 444)، مسند احمد 3/184، 209، 216، 259 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ کہنا ان کا بطور تعجب تھا، مطلب یہ ہے کہ سنا کیوں نہیں ہے اگر نہیں سنا ہوتا تو بیان کیسے کرتا، اور یہ مؤلف کا قیاسی استنباط ہے، یہاں نہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ اٹھانے میں مبالغہ نہیں کرتے تھے، نہ یہ کہ سرے سے اٹھاتے ہی نہیں تھے کیونکہ قنوت میں اور دوسرے موقعوں پر بھی آپ کا ہاتھ اٹھانا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله قال شعبة

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.