(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، قال: حدثنا عبد الرحمن الاعرج، انه سمع ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة , فيه خلق آدم عليه السلام , وفيه ادخل الجنة , وفيه اخرج منها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ , فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام , وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ , وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اور اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا حسين الجعفي، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن اوس بن اوس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن من افضل ايامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم عليه السلام , وفيه قبض , وفيه النفخة , وفيه الصعقة , فاكثروا علي من الصلاة , فإن صلاتكم معروضة علي" , قالوا: يا رسول الله , وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد ارمت اي يقولون قد بليت؟ قال:" إن الله عز وجل قد حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء عليهم السلام". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام , وَفِيهِ قُبِضَ , وَفِيهِ النَّفْخَةُ , وَفِيهِ الصَّعْقَةُ , فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ , فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ أَيْ يَقُولُونَ قَدْ بَلِيتَ؟ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَام".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے دنوں میں سب سے افضل (بہترین) جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بیہوشی طاری ہو گی، لہٰذا تم مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلاۃ (درود و رحمت) بھیجو کیونکہ تمہاری صلاۃ (درود و رحمت) مجھ پر پیش کیے جائیں گے“۱؎ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری صلاۃ (درود و رحمت) آپ پر کس طرح پیش کی جائیں گی حالانکہ آپ ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے، کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے جسم کو کھائے“۔
وضاحت: ۱؎: تمہارے درود مجھ پر پیش کیے جائیں گے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ براہ راست کسی کا درود نہیں سنتے نہ قریب سے نہ بعید سے، قریب سے سننے کی ایک روایت مشہور ہے لیکن وہ صحیح نہیں، صحیح یہی ہے کہ آپ خود کسی کا درود نہیں سنتے فرشتے ہی آپ کا درود پہنچاتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1531،1047) ابن ماجه (1636،1085) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 332
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا بكر يعني ابن مضر، عن ابن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: اتيت الطور فوجدت ثم كعبا، فمكثت انا وهو يوما احدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويحدثني عن التوراة، فقلت له: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم وفيه اهبط , وفيه تيب عليه , وفيه قبض , وفيه تقوم الساعة، ما على الارض من دابة إلا وهي تصبح يوم الجمعة مصيخة حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا ابن آدم، وفيه ساعة لا يصادفها مؤمن وهو في الصلاة يسال الله فيها شيئا إلا اعطاه إياه" , فقال كعب: ذلك يوم في كل سنة , فقلت: بل هي في كل جمعة، فقرا كعب التوراة، ثم قال: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم هو في كل جمعة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: أَتَيْتُ الطُّورَ فَوَجَدْتُ ثَمَّ كَعْبًا، فَمَكَثْتُ أَنَا وَهُوَ يَوْمًا أُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَدِّثُنِي عَنِ التَّوْرَاةِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُهْبِطَ , وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ , وَفِيهِ قُبِضَ , وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ تُصْبِحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مُصِيخَةً حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنَ السَّاعَةِ إِلَّا ابْنَ آدَمَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا مُؤْمِنٌ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ" , فَقَالَ كَعْبٌ: ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ , فَقُلْتُ: بَلْ هِيَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ، فَقَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب (کعب احبار) رضی اللہ عنہ ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی دن قیامت قائم ہو گی، زمین پر رہنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو جمعہ کے دن قیامت کے ڈر سے صبح کو سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے، سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اور نماز کی حالت میں ہو اور وہ اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا“، کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا: نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، یہ ہر جمعہ میں ہے۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا، تو میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے، انہوں نے کہا: کاش کہ میں آپ سے وہاں جانے سے پہلے ملا ہوتا، تو آپ وہاں نہ جاتے، میں نے ان سے کہا: کیوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: ”سواریاں استعمال نہ کی جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف: ایک مسجد الحرام کی طرف، دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی کی طرف، اور تیسری مسجد بیت المقدس ۱؎ کی طرف۔ پھر میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: کاش آپ نے مجھے دیکھا ہوتا، میں طور گیا تو میری ملاقات کعب سے ہوئی، پھر میں اور وہ دونوں پورے دن ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں سورج نکلا، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں دنیا میں اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی میں قیامت قائم ہو گی، زمین پر کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو قیامت کے ڈر سے جمعہ کے دن صبح سے سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس مسلمان کو وہ گھڑی نماز کی حالت میں مل جائے، اور وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے گا، اس پر کعب نے کہا: ایسا دن ہر سال میں ایک ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے غلط کہا، میں نے کہا: پھر کعب نے (تورات) پڑھی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، وہ ہر جمعہ میں ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے سچ کہا، پھر انہوں نے کہا: میں اس گھڑی کو جانتا ہوں، تو میں نے کہا: اے بھائی! مجھے وہ گھڑی بتا دیں، انہوں نے کہا: وہ گھڑی جمعہ کے دن سورج ڈوبنے سے پہلے کی آخری گھڑی ہے، تو میں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: ”جو مومن اس گھڑی کو پائے اور وہ نماز میں ہو“ جبکہ اس گھڑی میں کوئی نماز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص نماز پڑھے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے“، میں نے کہا: کیوں نہیں سنا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: تو وہ اسی طرح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 207 (1046) مختصراً، سنن الترمذی/الصلاة 237 (الجمعة 2) (491) مختصراً، موطا امام مالک/الجمعة 7 (16)، (تحفة الأشراف: 15000)، مسند احمد 2/476، 504، 5/451، 453، وقولہ: ’’فیہ ساعة لایصادفھا۔۔۔ الخ عند الشیخین والترمذی من طریق الأعرج عنہ، أنظر رقم: 1432 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: لہٰذا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے، ایسے ہی مقام کی زیارت کے لیے ثواب کی نیت سے جانا خواہ وہ کوئی قبر ہو یا شہر درست نہیں۔