(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، حدثني صفوان بن سليم ، عن سعيد بن سلمة هو من آل ابن الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة وهو من بني عبد الدار، حدثه انه سمع ابا هريرة ، يقول:" جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا نركب البحر، ونحمل معنا القليل من الماء، فإن توضانا به عطشنا، افنتوضا من ماء البحر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو الطهور ماؤه الحل ميتته". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ هُوَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّار، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی رکھتے ہیں، اگر ہم اس پانی سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی بذات خود پاک ہے، اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اس کا مردار حلال ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ”سمندر کا مردار حلال ہے“: اس سے مراد حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل پر ڈال دیا، اسی کو آیت «أحل لكم صيد البحر وطعامه»(سورة المائدة: 96) میں «طَعام» سے تعبیر کیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ ہے جو خشکی پر زندہ نہ رہ سکے جیسے مچھلی، تو مچھلی تمام اقسام کی حلال ہیں، رہے دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں، اگر کسی جانور کا نص شرعی سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا کھانا مروی ہے، اور وہ ان کے زمانے میں موجود تھا، تو اس کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
It was narrated that Mughirah bin Abu Burdah, who was from the tribe of Banu 'Abdud-Dar, said that:
He heard Abu Hurairah say: "A man came to the Messenger of Allah and said: "O Messenger of Allah, we travel by sea and carry a small amount of water with us. If we use it for ablution, we will become thirsty. Can we perform ablution with seawater?' The Messenger of Allah said: 'Its water is a means of purification, ad its dead meat is permissible. (i.e. the fish found dead in the sea).'"
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، حدثني صفوان بن سليم ، عن سعيد بن سلمة من آل ابن الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة ، وهو من بني عبد الدار حدثه انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" البحر الطهور ماؤه الحل ميتته"، قال ابو عبد الله: بلغني عن ابي عبيدة الجواد، انه قال: هذا نصف العلم، لان الدنيا بر وبحر، فقد افتاك في البحر، وبقي البر. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَحْرُ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْجَوَادِ، أَنَّهُ قَالَ: هَذَا نِصْفُ الْعِلْمِ، لِأَنَّ الدُّنْيَا بَرٌّ وَبَحْرٌ، فَقَدْ أَفْتَاكَ فِي الْبَحْرِ، وَبَقِيَ الْبَرُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے“۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتا دیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: صحابہ کی ایک جماعت، تابعین، مالک، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں: سمندر کے سب مردے حلال ہیں، خواہ خود بخود مر جائیں یا شکار سے مریں، اور مچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مر کر خود بخود پانی پر تیر آئے) میں اختلاف ہے، اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈ ک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں،ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور۔واللہ اعلم۔