وضاحت: ۱؎: ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد وہ پانی ہے جو نہر اور دریا کے پانی کی طرح جاری نہ ہو، جیسے گڑھا، جھیل اور تالاب وغیرہ کا پانی ان میں پیشاب کرنا منع ہے، تو پاخانہ کرنا بدرجہ اولیٰ منع ہو گا۔ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے ہی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بدبودار ہو جاتا ہے، اگر اس میں مزید نجاست اور گندگی ڈال دی جائے، تو یہ پانی مزید بدبودار ہو جائے گا، اور اس کی سڑاند سے قرب و جوار کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی، اور صحت عامہ میں خلل پیدا ہو گا، اور ماحول آلودہ ہو گا۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی شخص اپنے غسل خانہ میں قطعاً پیشاب نہ کرے، اس لیے کہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 15 (27)، سنن الترمذی/الطہارة 17 (21)، سنن النسائی/الطہارة 32 (36)، (تحفة الأشراف: 9648)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/56) (ضعیف)» ( «فإن عامة الوسواس منه» کے سیاق کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا: «لا يبولن أحدكم في مستحمه» شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 6، و صحیح ابی داود: 21)
It was narrated that 'Abdullah bin Mughaffal said:
"The Messenger of Allah said: 'None of you should urinate in his wash area for most of the insinuating thoughts come from that.'" (Da'if) Abu 'Abdullah bin Majah said: ("Abul-Hasan said: 'I heard Muhammed bin Yazid saying:) ''Ali bin Muhammed At-Tanafisi said: 'This (prohibition) applies to cases where the ground (in the place used for washing) was soft. But nowadays this does not apply, because the baths you use now are built of plaster, Saruj and tar; so if a person urinates there then pours water over it, that clears it away, and that is fine.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن الشطر الأول منه صح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (27) ترمذي (21) نسائي (36) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 387
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی شخص ہرگز پیشاب نہ کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7493، ومصباح الزجاجة: 142) (ضعیف)» (سند میں اسحاق بن عبداللہ أبی فروہ متروک ہیں، لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ «الماء الدائم» کے لفظ سے صحیح اور متفق علیہ ہے، کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو: سنن ابی داود: 69-70)
It was narrated that Ibn 'Umar said:
"The Messenger of Allah said: 'No one among you should urinate into standing water.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ الماء الدائم
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،ابن أبي فروة،اسمه إسحاق: متفق علي تركه“ وھو متروك (تقريب: 368) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 389
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے“، پھر کسی نے کہا: ابوہریرہ! تب وہ کیا کرے؟ کہا: اس میں سے پانی لے لے کر غسل کرے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ٹھہرے ہوئے پانی میں غوطہ لگانا منع ہے کیونکہ اس سے دوسرے لوگوں کو کراہت ہو گی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ پانی ناپاک ہو جائے گا، اس لئے منع ہے کیونکہ پانی اگر دو قلہ سے زیادہ ہو تو وہ اس طرح کی نجاست سے ناپاک نہیں ہوتا۔
It was narrated from Bukair bin 'Abdullah bin Ashajj that:
Abu Sa'ib, the freed slave of Hisham bin Zuhrah, told him that he heard Abu Hurairah say: "The Messenger of Allah said: 'No one of you should bathe in standing water when he is sexually impure.'" He (Abu Sa'ib) said: "What should he do, O Abu Hurairah?" He said: "Let him take some out (and pour it over himself)."