عبدالرحمٰن بن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے «ضبع»(لکڑبگھا)۱؎ کے متعلق سوال کیا، کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے عرض کیا: کیا میں اسے کھاؤں؟ کہا: ہاں، پھر میں نے عرض کیا: کیا آپ نے (اس سلسلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
وضاحت: «ضبع»: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع «اضبع» ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو «مضبعہ» یا «مجفرہ» کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکارکرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے «ضبع» کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے «کفتار» اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ «ضبع» سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور «ضبع» سے مراد لکڑبگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں «ضبع» کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: ” اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہو گا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے “ سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی «ضبع» کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربك غفور رحيم»(سورة الأنعام: 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ۵/۱۳۳-۱۳۴)
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے شکار کئے ہوئے بجو کے کفارہ میں ایک مینڈھا متعین فرمایا، اور اسے شکار قرار دیا ۱؎۔