سنن ابن ماجه
كتاب الصيد
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
15. بَابُ : الضَّبُعِ
باب: لکڑبگھا کا بیان۔
حدیث نمبر: 3236
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ:" سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ : عَنِ الضَّبُعِ أَصَيْدٌ هُوَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: آكُلُهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَشَيْءٌ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: نَعَمْ".
عبدالرحمٰن بن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے «ضبع» (لکڑبگھا) ۱؎ کے متعلق سوال کیا، کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے عرض کیا: کیا میں اسے کھاؤں؟ کہا: ہاں، پھر میں نے عرض کیا: کیا آپ نے (اس سلسلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 32 (3801)، سنن الترمذی/الحج 28 (851)، الأطعمة 4 (1792)، سنن النسائی/الحج 89 (2839)، الصید 27 (4328)، (تحفة الأشراف: 2381)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/297، 318)، سنن الدارمی/المناسک90 (1984) (صحیح)»
وضاحت: «ضبع»: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع «اضبع» ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو «مضبعہ» یا «مجفرہ» کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکارکرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے «ضبع» کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے «کفتار» اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ «ضبع» سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور «ضبع» سے مراد لکڑبگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں «ضبع» کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: ” اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہو گا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے “ سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی «ضبع» کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربك غفور رحيم» (سورة الأنعام: 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ۵/۱۳۳-۱۳۴)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3236 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3236
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لگڑ بھگا ایک جنگلی جانور ہے جسے لگڑ بگڑ بھی کہتے ہیں۔
یہ حلال ہے۔
(2)
بعض حضرات نے ضبع کا ترجمہ بجو کیا ہے جودرست نہیں۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھیے: (سنن ابو داؤد (اردو)
طبع دار السلام حدیث: 3801)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3236
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1140
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن ابی عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا بجو (چرگ) بھی شکار ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! میں نے پھر پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں!۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور بخاری اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1140»
تخریج: « «إسناد صحيح» أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في أكل الضبع، حديث:3801، والترمذي، الأطعمة، حديث:1791، والنسائي، الصيد، حديث:4328، وابن ماجه، الصيد، حديث:3236، وأحمد:3 /318، 322.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «ابن ابی عمار» ان کا نام عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی عمار قریشی مکی ہے۔
کثرت عبادت کی وجہ سے ان کا لقب قـسّ، یعنی راہب تھا۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1140
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2839
´محرم کس جانور کو نہیں مار سکتا؟`
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کے کھانے کا حکم دیا، میں نے ان سے پوچھا: کیا وہ شکار ہے؟ کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: ہاں (میں نے سنا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2839]
اردو حاشہ:
(1) بجو مردار خور نہیں۔ اگر یہ مردار خور ہوتا تو اسے حرام کہنے میں کوئی باک نہیں تھا۔ چونکہ یہ حلال جانور ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ شکار کی ذیل میں آتا ہے۔ محرم کے لیے شکار حرام ہے، لہٰذا وہ بجو کو نہیں مار سکتا۔ اگر مارے گا تو اسے اس کا فدیہ دینا پڑے گا۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ
(2) اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ محرم بجو کو قتل یا شکار نہیں کر سکتا، البتہ اس کی حلت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ اسے کھانا حلال سمجھتے ہیں۔ دیگر اہل علم نے اسے حرام کہا ہے کہ یہ ”ذوناب“ (کچلی والا جانور) ہے۔ مگر شاید وہ اس بات سے غافل رہے کہ یہاں ذوناب کے لغوی معنیٰ مراد نہیں بلکہ ”ذوناب“ سے مراد شکاری جانور ہے جیسے کتا، شیر، چیتا وغیرہ اور بجو بالا تفاق شکاری نہیں۔ ”ناب“ تو وجہ حرمت نہیں۔ اس ناب میں کیا حرج جو شکار نہ کرے۔ (تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان ہوگی)۔
(3) اس حدیث سے اشارتاً یہ بات سمجھ آتی ہے کہ محرم کوئی ایسا جانور شکار نہیں کر سکتا جسے کھایا جاتا یا جو کسی منفعت کی وجہ سے شکار کیا جاتا ہو۔ اگر وہ شکار کرے گا تو اسے جزا دینی پڑے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2839
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4328
´لکڑ بگھا کا بیان۔`
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا، میں نے کہا: کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: ”ہاں۔“ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4328]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ شکار ہے، اس لیے محرم شخص اس کا شکار کرے گا تو اسے اس کی مثل یعنی مینڈھا بطور فدیہ دینا پڑے گا۔
(2) اسلاف میں یہ سوچ شعوری طور پر کار فرما تھی کہ وہ اپنے سوال کا مدلل ومحکم جواب حاصل کرنے کے لیے دلیل ضرور طلب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابن ابو عمار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ اور انھوں نے فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔
(3) کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔
(4) دلیل طلب کرنا اس عالم کی توہین نہیں اور نہ اسے اپنی توہین ہی سمجھنا چاہیے بلکہ اسے بخوشی دلیل بیان کر دینی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4328
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3801
´بجو کھانے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکڑبگھا (لگڑ بگڑ) ۱؎ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”وہ شکار ہے اور جب محرم اس کا شکار کرے تو اسے ایک دنبے کا دم دینا پڑے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3801]
فوائد ومسائل:
1۔
اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ کا کھانا حلال ہے۔
کیونکہ اسے نبی کریمﷺ نے شکار قرا ر دیا ہے۔
یعنی جس کا شکارکرکے کھانا جائز ہے۔
2۔
دوسرا یہ معلوم ہوا کہ حالت احرام میں محرم اگر کسی جانور کا شکار کرلے گا تو اسے اس جانور کے مثل فدیہ ضروری ہوگا۔
اور یہ مثلیت ظاہری جسم کے ڈیل ڈول (قدوقامت) کے حساب سے ہوگی۔
نہ کہ قیمت کے اعتبارسے جیسے لگڑ بگڑ اور مینڈھا جسامت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔
3۔
لگڑ بھگڑ بھی ذوناب جانور ہے۔
اور ہر ذوناب درندہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔
پھر اسے اس حدیث میں کیوں حلال قرار دیا گیا ہے۔
امام خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ کُلُّ ذِي نابٍ مِنَ السباعِ کے عموم سے اس کی تخصیص ہوگئی ہے۔
اور امام ابن قیم نے کہا ہے کہ لگڑ بگڑ (ضبع) بھی اگرچہ درندہ ہی ہے، لیکن ہردرندے میں حرمت کی دو وجہیں ہیں۔
ایک کچلیوں کا ہونا او ردوسرا عادی درندہ ہونا اور درندہ کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم اور خاص ہے۔
اس لئے کہ دونوں وصف رکھنے والے جانوروں کے کھانے سے کھانے والے کو اندر بھی درندگی والی قوت آجاتی ہے۔
جیسے شیر۔
لومڑی۔
وغیرہ ہیں۔
اور لگڑ بگڑ کچلیاں والا تو ہے۔
لیکن اس میں درندگی والی وہ قوت نہیں ہے جو مذکورہ جانوروں میں ہے، اس لئے اس کو حلال قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3801
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3085
´اگر محرم شکار کرے تو اس کے کفارہ کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے شکار کئے ہوئے بجو کے کفارہ میں ایک مینڈھا متعین فرمایا، اور اسے شکار قرار دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3085]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں جنگلی جانور کا شکار کرنا حرام ہے جب کہ حرم کی حد میں ہر شخص کے لیے شکار حرام ہے۔
خواہ احرام باندھا ہوا ہو یا نہ ہو۔
(2)
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا﴾ (المائدة5/ 95)
”اے ایمان والوں! شکار کو مت قتل کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔
اور جو شخص تم میں سی اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تواس پر وہ فدیہ واجب ہوگا جو مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے۔
جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں۔
یہ (فدیہ)
چوپایوں میں سے ہو جو (نیاز کے طور پر)
کعبہ تک پہنچایا جائے یا اس کا کفارہ مساکین کو دیا جائے یا اس کے برابر روزے رکھ لیے جائیں۔“
(2)
لکڑبھگا کے برابر قربانی کے جانوروں میں سے مینڈھا ہے۔
(3)
قرآن مجید میں شکار کیے گئے جانور کےمثل (مساوی)
جانور قربان کرنے کا حکم ہے۔
اس سے مراد قدوقامت میں مساوی ہونا ہے۔
مثلاً:
ہرن کے بدلے بکری اور گائے کے بدلے گائےمکہ پہنچائی جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف۔
سورۃ مائدہ آیت: 95)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3085