(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة، اخبرنا سفيان، عن يزيد بن خصيفة، عن بسر بن سعيد، عن ابي سعيد الخدري، قال: كنت جالسا في مجلس من مجالس الانصار، فجاء ابو موسى فزعا، فقلنا له: ما افزعك؟ قال:" امرني عمر ان آتيه فاتيته، فاستاذنت ثلاثا فلم يؤذن لي فرجعت، فقال: ما منعك ان تاتيني؟ قلت: قد جئت فاستاذنت ثلاثا، فلم يؤذن لي، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا استاذن احدكم ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع , قال: لتاتين على هذا بالبينة، فقال ابو سعيد: لا يقوم معك إلا اصغر القوم، قال: فقام ابو سعيد معه، فشهد له. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ أَبُو مُوسَى فَزِعًا، فَقُلْنَا لَهُ: مَا أَفْزَعَكَ؟ قَالَ:" أَمَرَنِي عُمَرُ أَنْ آتِيَهُ فَأَتَيْتُهُ، فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي فَرَجَعْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟ قُلْتُ: قَدْ جِئْتُ فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، وَقَدْ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ , قال: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِالْبَيِّنَةِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَا يَقُومُ مَعَكَ إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ مَعَهُ، فَشَهِدَ لَهُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دوبارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا: تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اندر آنے کی اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ لوٹ جائے (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اس بات کے لیے گواہ پیش کرو، اس پر ابوسعید نے کہا: (اس کی گواہی کے لیے تو) تمہارے ساتھ قوم کا ایک معمولی شخص ہی جا سکتا ہے، پھر ابوسعید ہی اٹھ کر ابوموسیٰ کے ساتھ گئے اور گواہی دی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 9 (2062)، الاستئذان 13 (6245)، صحیح مسلم/الآداب 7 (2153)، (تحفة الأشراف: 3970)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان 3 (2690)، سنن ابن ماجہ/الأدب 17 (3706)، موطا امام مالک/الاستئذان 1 (3)، مسند احمد (4/398)، دي /الاستئذان 1 (2671) (صحیح)»
Abu Saeed Al-Khudri said: I was sitting in one of the meeting of the Ansar. Abu Musa came terrified. We asked him; what makes you terrified? He replied: Umar sent for me; so I went to him and asked his permission three times, but he did not permit me (to enter), so I came back. He asked; what has prevented you from coming to me? I replied: I came and asked permission three times, but it was not granted to me (so I returned). The Messenger of Allah ﷺ has said: When one of you asks permission three times and it is not granted to him, he should go away. He (Umar’) said; establish the proof of it. So Abu Saeed said: the youngest of the people will accompany you. So Abu Saeed got up with him and testified.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5161
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6245) صحيح مسلم (2153)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الله بن داود، عن طلحة بن يحيى، عن ابي بردة، عن ابي موسى،" انه اتى عمر فاستاذن ثلاثا، فقال: يستاذن ابو موسى، يستاذن الاشعري، يستاذن عبد الله بن قيس، فلم يؤذن له فرجع، فبعث إليه عمر: ما ردك؟ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يستاذن احدكم ثلاثا، فإن اذن له، وإلا فليرجع , قال: ائتني ببينة على هذا، فذهب ثم رجع، فقال: هذا ابي، فقال ابي: يا عمر، لا تكن عذابا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: لا اكون عذابا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى،" أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ فَاسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا، فَقَالَ: يَسْتَأْذِنُ أَبُو مُوسَى، يَسْتَأْذِنُ الْأَشْعَرِيُّ، يَسْتَأْذِنُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَرَجَعَ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ عُمَرُ: مَا رَدَّكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَسْتَأْذِنُ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، فَإِنْ أُذِنَ لَهُ، وَإِلَّا فَلْيَرْجِعْ , قال: ائْتِنِي بِبَيِّنَةٍ عَلَى هَذَا، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: هَذَا أُبَيٌّ، فَقَالَ أُبَيٌّ: يَا عُمَرُ، لَا تَكُنْ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَكُونُ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے اندر آنے کی اجازت تین مرتبہ مانگی: ابوموسیٰ اجازت کا طلب گار ہے، اشعری اجازت مانگ رہا ہے، عبداللہ بن قیس اجازت مانگ رہا ہے ۱؎ انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے بلانے کے لیے بھیجا (جب وہ آئے) تو پوچھا: لوٹ کیوں گئے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے ہر کوئی تین بار اجازت مانگے، اگر اسے اجازت دے دی جائے (تو اندر چلا جائے) اور اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جائے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس بات کے لیے گواہ پیش کرو، وہ گئے اور (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لے کر) واپس آئے اور کہا یہ ابی (گواہ) ہیں ۲؎، ابی نے کہا: اے عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لیے باعث عذاب نہ بنو تو عمر نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے باعث اذیت نہیں ہو سکتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ الآداب 7 (2154)، (تحفة الأشراف: 9100)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/398) (حسن الإسناد)» (اس کے راوی طلحہ سے غلطی ہو جایا کرتی تھی، ویسے پچھلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ابوموسیٰ اشعری کا نام عبداللہ بن قیس ہے، آپ نے نام سے، کنیت سے، قبیلہ کی طرف نسبت سے، تینوں طریقوں سے اجازت مانگی۔ ۲؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ شاہد ابوسعید تھے اور اس میں ہے ابی بن کعب تھے دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ ابوسعید خدری نے پہلے گواہی دی اس کے بعد ابی بن کعب آئے اور انہوں نے بھی گواہی دی۔
Abu Musa said that he came to Umar and asked permission three times saying: Abu Musa asks permission, al-Ash’ari ask permission, and Abdullah bin Qais asks permission, but it was not granted to him. So he went away and Umar sent for him saying: what did you return? He replied: The Messenger of Allah ﷺ said: When one of you asks permission three times and it is not granted to him, he should go away. He said: Establish the proof of it. He went, came back, and said; This is Ubayy. Ubayy said: Umar, do not be an agony for the Companions of the Messenger of Allah ﷺ. Umar said: I shall not be an agony for the Companions of the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5162
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حبيب، حدثنا روح، حدثنا ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، عن عبيد بن عمير، ان ابا موسى استاذن على عمر بهذه القصة، قال فيه: فانطلق بابي سعيد فشهد له، فقال: اخفي علي هذا من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، الهاني السفق بالاسواق ولكن سلم ما شئت، ولا تستاذن. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ فِيهِ: فَانْطَلَقَ بأَبِي سَعِيدٍ فَشَهِدَ لَهُ، فَقَالَ: أَخَفِيَ عَلَيَّ هَذَا مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلْهَانِي السَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ وَلَكِنْ سَلِّمْ مَا شِئْتَ، وَلَا تَسْتَأْذِنْ.
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی، پھر راوی نے یہی قصہ بیان کیا، اس میں ہے یہاں تک کہ ابوموسیٰ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے، اور انہوں نے گواہی دی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مجھ سے پوشیدہ رہ گئی، بازاروں کی خرید و فروخت اور تجارت کے معاملات نے اس حدیث کی آگاہی سے مجھے غافل و محروم کر دیا، (اب تمہارے لیے اجازت ہے) سلام جتنی بار چاہو کرو، اندر آنے کے لیے اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (5180)، (تحفة الأشراف: 4146) (صحیح)» (لیکن آخری ٹکڑا '' جتنی بار چاہو... '' صحیح نہیں ہے، اور یہ صحیحین میں ہے بھی نہیں)
Ubaid bin Umair said: Abu Musa asked Umar for permission to enter the house. This version has: he went with Abu sa’ld who testified to it. He said Did this practice of the Messenger of Allah ﷺ remain hidden from me? My engagement in the transaction in the market made me oblivious of it. Now give me salutation as you wish; and do not ask permission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5163
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2062) صحيح مسلم (2153)
اس سند سے بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ سے کہا: میں تم پر (جھوٹی حدیث بیان کرنے کا) اتہام نہیں لگاتا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے کا معاملہ سخت ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (5181)، (تحفة الأشراف: 9084) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: حدیث کو روایت کرنے میں بڑی احتیاط اور ہوشیاری لازم ہے، ایسا نہ ہو کہ بھول چوک ہو جائے یا غلط فہمی سے الفاظ بدلنے میں مطلب کچھ کا کچھ ہو جائے۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Abu Musa in a similar way through a different chain of narrators. This version has: Umar said to Abu Musa: I do not blame you, but the matter of transmitting a tradition from the Messenger of Allah ﷺ is serious.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5164
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديثين السابقين (5181، 5182) والآتي (5184)