(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، اخبرنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن رجل من بني عامر، قال: دخلت في الإسلام فاهمني ديني، فاتيت ابا ذر، فقال ابو ذر:" إني اجتويت المدينة، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وبغنم، فقال لي: اشرب من البانها، قال حماد: واشك في ابوالها، هذا قول حماد، فقال ابو ذر: فكنت اعزب عن الماء، ومعي اهلي فتصيبني الجنابة فاصلي بغير طهور، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بنصف النهار وهو في رهط من اصحابه وهو في ظل المسجد، فقال ابو ذر: فقلت: نعم هلكت يا رسول الله، قال: وما اهلكك؟ قلت: إني كنت اعزب عن الماء ومعي اهلي فتصيبني الجنابة فاصلي بغير طهور، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء فجاءت به جارية سوداء بعس يتخضخض ما هو بملآن فتسترت إلى بعيري فاغتسلت ثم جئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابا ذر إن الصعيد الطيب طهور، وإن لم تجد الماء إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فامسه جلدك"، قال ابو داود: رواه حماد بن زيد، عن ايوب، لم يذكر ابوالها. قال ابو داود: هذا ليس بصحيح، وليس في ابوالها إلا حديث انس، تفرد به اهل البصرة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَأَهَمَّنِي دِينِي، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ:" إِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَبِغَنَمٍ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ مِنْ أَلْبَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَشُكُّ فِي أَبْوَالِهَا، هَذَا قَوْلُ حَمَّادٍ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طَهُورٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ النَّهَارِ وَهُوَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَهُوَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَقُلْتُ: نَعَمْ هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا أَهْلَكَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طُهُورٍ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَجَاءَتْ بِهِ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ يَتَخَضْخَضُ مَا هُوَ بِمَلْآنَ فَتَسَتَّرْتُ إِلَى بَعِيرِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ، وَإِنْ لَمْ تَجِدِ الْمَاءَ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، لَمْ يَذْكُرْ أَبْوَالَهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَيْسَ فِي أَبْوَالِهَا إِلَّا حَدِيثُ أَنَسٍ، تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْبَصْرَةِ.
قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ میں اسلام میں داخل ہوا تو مجھے اپنا دین سیکھنے کی فکر لاحق ہوئی لہٰذا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا: مجھے مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹ اور بکریاں دینے کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا: ”تم ان کا دودھ پیو“، (حماد کا بیان ہے کہ مجھے شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیشاب بھی پینے کے لیے کہا یا نہیں، یہ حماد کا قول ہے)، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پانی سے (اکثر) دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوپہر کے وقت آیا، آپ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد کے سائے میں (بیٹھے) تھے، آپ نے فرمایا: ”ابوذر؟“، میں نے کہا: جی، اللہ کے رسول! میں تو ہلاک و برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں ہلاک و برباد کیا؟“، میں نے کہا: میں پانی سے دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے پانی لانے کا حکم دیا، چنانچہ ایک کالی لونڈی بڑے برتن میں پانی لے کر آئی جو برتن میں ہل رہا تھا، برتن بھرا ہوا نہیں تھا، پھر میں نے اپنے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، پھر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! پاک مٹی پاک کرنے والی ہے، اگرچہ تم دس سال تک پانی نہ پاؤ، لیکن جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی کھال پر بہاؤ (غسل کرو)“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12008) (صحیح)» (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک راوی ”رجل من بنی عامر“ مبہم راوی ہیں اور یہ وہی ”عمرو بن بجدان“ ہیں)
A man from Banu Amir said: I embraced Islam and my (ignorance of the) religion made me anxious (to learn the essentials). I came to Abu Dharr. Abu Dharr said: The climate of Madina did not suit me. The Messenger of Allah ﷺ ordered me to have a few camels and goats. He said to me: Drink their milk. (The narrator Hammad said): I doubt whether he (the Prophet) said: "their urine. " Abu Dharr said: I was away from the watering place and I had my family with me. I would have sexual defilement and pray without purification. I came to the Messenger of Allah ﷺ at noon. He was resting in the shade of the mosque along with a group of Companions. He (the Prophet) said: Abu Dharr. I said: Yes, I am ruined, Messenger of Allah. He said: What ruined you ? I said: I was away from the watering place and I had family with me. I used to be sexually defiled and pray without purification. He commanded (to bring) water for me. Then a black slave-girl brought a vessel of water that was shaking as the vessel was not full. I concealed myself behind a camel and took bath and them came (to the Prophet). The Messenger of Allah ﷺ said: Abu Dharr, clean earth is a means of ablution, even if you do not find water for ten years. When you find water, you should make it touch your skin. Abu Dawud said: This is transmitted by Hammad bin Zaid from Ayyub. This version does not mention the words "their urine. " This is not correct. The words "their urine" occur only in the version reported by Anas and transmitted only by the people of Basrah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 333
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن رجل من بني عامر ھو عمرو بن بجدان (التقريب: 8522) وھو صحيح الحديث وثقه العجلي المعتدل وابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذھبي فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، حدثه عن عمار بن ياسر،" انه كان يحدث انهم تمسحوا وهم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصعيد لصلاة الفجر، فضربوا باكفهم الصعيد ثم مسحوا وجوههم مسحة واحدة، ثم عادوا فضربوا باكفهم الصعيد مرة اخرى فمسحوا بايديهم كلها إلى المناكب والآباط من بطون ايديهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، حَدَّثَهُ عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ،" أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُمْ تَمَسَّحُوا وَهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّعِيدِ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ ثُمَّ مَسَحُوا وُجُوهَهُمْ مَسْحَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ عَادُوا فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ مَرَّةً أُخْرَى فَمَسَحُوا بِأَيْدِيهِمْ كُلِّهَا إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ مِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ لوگوں نے فجر کی نماز کے لیے پاک مٹی سے تیمم کیا، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو انہوں نے مٹی پر اپنا ہاتھ مارا اور منہ پر ایک دفعہ پھیر لیا، پھر دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا اور اپنے پورے ہاتھوں پر پھیر لیا یعنی اپنی ہتھیلیوں سے لے کر کندھوں اور بغلوں تک ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تیمم کا طریقہ آگے حدیث نمبر (۳۲۰) میں آ رہا ہے، جس میں ہاتھ کو صرف ایک بار مٹی پر مار کر منہ اور ہتھیلی پر مسح کرنے کا بیان ہے اس حدیث کے سلسلہ میں علامہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ ابتداء میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے اپنی سمجھ اور قیاس سے ایسا کیا، لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا طریقہ بتایا تو وہ اس کو سیکھ گئے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مونڈھے تک تیمم کیا، اور آپ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے لئے چہرہ اور دونوں ہتھیلی تک مسح کا حکم دیا، تو گویا زیر نظر واقعہ میں مذکور تیمم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں تھا (ملاحظہ ہو: عون المعبود ۱؍۳۵۰ و ۳۵۱)
Narrated Ammar ibn Yasir: They (the Companions of the Prophet) wiped with pure earth (their hands and face) to offer the dawn prayer in the company of the Messenger of Allah ﷺ. They struck the ground with their palms and wiped their faces once. Then they repeated and struck the ground with their palms once again and wiped their arms completely up to the shoulders and up to the armpits with the inner side of their hands.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 318
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (536) انظر الحديث الآتي (320)
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا ابو معاوية الضرير، عن الاعمش، عن شقيق، قال: كنت جالسا بين عبد الله، وابي موسى، فقال ابو موسى: يا ابا عبد الرحمن، ارايت لو ان رجلا اجنب فلم يجد الماء شهرا، اما كان يتيمم؟ فقال: لا، وإن لم يجد الماء شهرا؟ فقال ابو موسى: فكيف تصنعون بهذه الآية التي في سورة المائدة: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة المائدة آية 6؟ فقال عبد الله: لو رخص لهم في هذا لاوشكوا إذا برد عليهم الماء ان يتيمموا بالصعيد. فقال له ابو موسى: وإنما كرهتم هذا لهذا؟ قال: نعم. فقال له ابو موسى: الم تسمع قول عمار لعمر:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت فلم اجد الماء فتمرغت في الصعيد كما تتمرغ الدابة ثم، اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: إنما كان يكفيك ان تصنع هكذا:" فضرب بيده على الارض فنفضها، ثم ضرب بشماله على يمينه وبيمينه على شماله على الكفين، ثم مسح وجهه"، فقال له عبد الله: افلم تر عمر لم يقنع بقول عمار. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا بَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ؟ فَقَالَ: لَا، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة المائدة آية 6؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا بِالصَّعِيدِ. فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هَذَا لِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّار لِعُمَرَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدَ الْمَاءَ فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَتَمَرَّغُ الدَّابَّةُ ثُمَّ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا:" فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَرْضِ فَنَفَضَهَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ وَبِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ عَلَى الْكَفَّيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ"، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا: تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت: «فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا»”پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو“ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات (جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟!۔
Shaqiq said: While I was sitting between Abdullah and Abu Musa, the latter said: Abu Abdur-Rahman, what do you think if a man becomes defiled (because of seminal omission) and does not find water for a month; should he not perform tayammum ? He replied: No, even if he does not find water for a month. Abu Musa then said: How will you do with the Quranic version (about tayammum) in the chapter al-Ma'idah which says: ". . . and you find no water, then go to clean, high ground" (5: 6)? Abdullah (bin Masud) then said: If they (the people) are granted concession in this respect, they might perform tayammum with pure earth when water is cold. Abu Musa said: For this (reason) you forbade it ? He said: Yes. Abu Musa then said: Did you not hear what Ammar said to Umar ? (He said): The Messenger of Allah ﷺ sent me on some errand. I had seminal emission and I did not find water. Therefore, I rolled on the ground just as an animal rolls down. I then came to the Prophet ﷺ and made a mention of that to him. He said: It would have been enough for you to do thus. Then he struck the ground with his hands and shook them off and then stuck the right hand with his left hand and his left hand with his right hand (and wiped) over his hands (up to the wrist) and wiped his face. Abdullah then said to him: Did you not see that Umar was not satisfied with the statement of Ammar ?
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 321
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (345، 346) صحيح مسلم (368)
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير العبدي، حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن ابي مالك، عن عبد الرحمن بن ابزى، قال: كنت عند عمر، فجاءه رجل، فقال: إنا نكون بالمكان الشهر والشهرين، فقال عمر: اما انا فلم اكن اصلي حتى اجد الماء، قال: فقال عمار: يا امير المؤمنين، اما تذكر إذ كنت انا وانت في الإبل فاصابتنا جنابة، فاما انا فتمعكت، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال:" إنما كان يكفيك ان تقول هكذا، وضرب بيديه إلى الارض ثم نفخهما ثم مسح بهما وجهه ويديه إلى نصف الذراع"، فقال عمر: يا عمار، اتق الله، فقال: يا امير المؤمنين، إن شئت والله لم اذكره ابدا. فقال، عمر: كلا والله لنولينك من ذلك ما توليت. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّا نَكُونُ بِالْمَكَانِ الشَّهْرَ وَالشَّهْرَيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَكُنْ أُصَلِّي حَتَّى أَجِدَ الْمَاءَ، قَالَ: فَقَالَ عَمَّارٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَمَا تَذْكُرُ إِذْ كُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ فِي الْإِبِلِ فَأَصَابَتْنَا جَنَابَةٌ، فَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ هَكَذَا، وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ نَفَخَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى نِصْفِ الذِّرَاعِ"، فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَمَّارُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنْ شِئْتَ وَاللَّهِ لَمْ أَذْكُرْهُ أَبَدًا. فَقَالَ، عُمَرُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَنُوَلِّيَنَّكَ مِنْ ذَلِكَ مَا تَوَلَّيْتَ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دو ماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہو جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ کہتے ہیں: اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لاحق ہو گئی، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں بس اس طرح کر لینا کافی تھا“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار! اللہ سے ڈرو ۱؎، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف:: 10362) (صحیح)» (مگر «إلى نصف الذراعين» کا لفظ صحیح نہیں ہے، یہ شاذ ہے اور صحیحین میں ہے بھی نہیں)
وضاحت: ۱؎: اس بے اطمینانی کی وجہ یہ تھی کہ عمر رضی اللہ عنہ خود اس قضیہ میں عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے لیکن انہیں اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے یاد ہی نہیں آ رہا تھا۔
Abdur-Rahman bin Abza said: While I was with Umar, a man came to him and said: We live at a place (where water is not found) for a month or two (what should we do, if we are sexually defiled). Umar said: So far as I am concerned, I do not pray until I find water. Ammar said: Commanded of the faithful, do you not remember when I and you were among the camels (For tending them)? There we became sexually defiled. I rolled down on the ground. We then came to the Prophet ﷺ and I mentioned that to him. He said: It was enough for you to do so. Then he struck the ground with both his hands. He then blew over them and wiped his face and both hands by means of them up to half the arms. Umar said: Ammar, fear Allah. He said: Commander of the faithful, if you want, I will never narrate it. Umar said: Nay, by Allah, we shall turn you from that towards which you turned (i. e. you have your choice).
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 322
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله إلى نصف الذراع فإنه شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديثين الآتين (323، 324) وأخرجه البيھقي (1/210) من حديث أبي داود به وسنده قوي
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ضربہ ۱؎ کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 10362) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک بار مٹی پر ہاتھ مار کر چہرہ اور دونوں ہتھیلی پر پھیرا جائے۔
Ammar bin Yasir said: I asked the Prophet ﷺ about tayammum. He commanded me to strike only one stroke (i. e. the strike the ground) for (wiping) the face and the hands.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 327
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد منھا الحديث السابق (326) وزاد ابن حبان (الاحسان: 1300): ’’وكان قتادة به يفتي‘‘
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد الواسطي، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة. ح حدثنا مسدد، اخبرنا خالد يعني ابن عبد الله الواسطي، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن عمرو بن بجدان، عن ابي ذر، قال: اجتمعت غنيمة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابا ذر، ابد فيها، فبدوت إلى الربذة فكانت تصيبني الجنابة فامكث الخمس والست، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ابو ذر، فسكت، فقال: ثكلتك امك ابا ذر لامك الويل، فدعا لي بجارية سوداء فجاءت بعس فيه ماء فسترتني بثوب واستترت بالراحلة واغتسلت فكاني القيت عني جبلا، فقال:" الصعيد الطيب وضوء المسلم ولو إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فامسه جلدك فإن ذلك خير"، وقال مسدد: غنيمة من الصدقة، قال ابو داود: وحديث عمرو اتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ. ح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيَّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: اجْتَمَعَتْ غُنَيْمَةٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، ابْدُ فِيهَا، فَبَدَوْتُ إِلَى الرَّبَذَةِ فَكَانَتْ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأَمْكُثُ الْخَمْسَ وَالسِّتَّ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبُو ذَرٍّ، فَسَكَتُّ، فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا ذَرٍّ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ، فَدَعَا لِي بِجَارِيَةٍ سَوْدَاءَ فَجَاءَتْ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ فَسَتَرَتْنِي بِثَوْبٍ وَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ وَاغْتَسَلْتُ فَكَأَنِّي أَلْقَيْتُ عَنِّي جَبَلًا، فَقَالَ:" الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ"، وَقَالَ مُسَدَّدٌ: غُنَيْمَةٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ عَمْرٍو أَتَمُّ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ بکریاں جمع ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! تم ان بکریوں کو جنگل میں لے جاؤ“، چنانچہ میں انہیں ہانک کر مقام ربذہ کی طرف لے گیا، وہاں مجھے جنابت لاحق ہو جایا کرتی تھی اور میں پانچ پانچ چھ چھ روز یوں ہی رہا کرتا، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ”ابوذر!“، میں خاموش رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں تم پر روئے، ابوذر! تمہاری ماں کے لیے بربادی ہو ۱؎“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے ایک کالی لونڈی بلائی، وہ ایک بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی، اس نے میرے لیے ایک کپڑے کی آڑ کی اور (دوسری طرف سے) میں نے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، (غسل کر کے مجھے ایسا لگا) گویا کہ میں نے اپنے اوپر سے کوئی پہاڑ ہٹا دیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے“۔ مسدد کی روایت میں «غنيمة من الصدقة» کے الفاظ ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمرو کی روایت زیادہ کامل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 92 (124)، سنن النسائی/الطھارة 205 (323)، (تحفة الأشراف: 12008)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/155، 180) (صحیح)» (بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے ایک راوی ”عمرو بن بجدان“ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس طرح کے الفاظ زبان پر یوں ہی بطور تعجب جاری ہو جاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔
Abu Dharr said: A few goats got collected with the Messenger of Allah ﷺ. He said: Abu Dharr, drive them to the wood. I drove them to Rabadhah (a place near Madina). I would have sexual defilement (during my stay there) and I would remain (in this condition) for five or six days. Then I came to the Messenger of Allah ﷺ. He said: O Abu Dharr. I kept silence. He then said: May your mother bereave you, Abu Dharr: woe be to your mother. He then called a black slave-girl for me. She brought a vessel which contained water. She then concealed me by drawing a curtain and I concealed myself behind a she-camel, and took a bath. I felt as if I had thrown away a mountain from me. He said: Clean earth is a means for ablution for a Muslim, even for ten years (he does not find water); but when you find water, you should make it touch your skin, for that is better. The version of Musaddad has: "the goats (were collected) from the alms, " and the tradition reported by Amr is complete.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 332
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (530) عمرو بن بجدان: وثقه العجلي المعتدل وابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذھبي فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن