سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
Funerals (Kitab Al-Janaiz)
1. باب الأَمْرَاضِ الْمُكَفِّرَةِ لِلذُّنُوبِ
1. باب: گناہوں کے لیے کفارہ بننے والی بیماریوں کا بیان۔
Chapter: Sickness Which Expiate For Sins.
حدیث نمبر: 3089
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني رجل من اهل الشام يقال له ابو منظور،عن عمه، قال: حدثني عمي، عن عامر الرام اخي الخضر، قال ابو داود، قال النفيلي: هو الخضر، ولكن كذا قال، قال: إني لببلادنا إذ رفعت لنا رايات والوية، فقلت: ما هذا؟ قالوا: هذا لواء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيته، وهو تحت شجرة قد بسط له كساء، وهو جالس عليه، وقد اجتمع إليه اصحابه، فجلست إليهم، فذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الاسقام، فقال:" إن المؤمن إذا اصابه السقم، ثم اعفاه الله منه، كان كفارة لما مضى من ذنوبه، وموعظة له فيما يستقبل، وإن المنافق إذا مرض ثم اعفي كان كالبعير، عقله اهله، ثم ارسلوه فلم يدر لم عقلوه، ولم يدر لم ارسلوه، فقال رجل ممن حوله: يا رسول الله، وما الاسقام؟ والله ما مرضت قط، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قم عنا، فلست منا، فبينا نحن عنده إذ اقبل رجل عليه كساء، وفي يده شيء قد التف عليه، فقال: يا رسول الله، إني لما رايتك اقبلت إليك، فمررت بغيضة شجر، فسمعت فيها اصوات فراخ طائر، فاخذتهن فوضعتهن في كسائي، فجاءت امهن فاستدارت على راسي، فكشفت لها عنهن فوقعت عليهن معهن، فلففتهن بكسائي، فهن اولاء معي، قال: ضعهن عنك، فوضعتهن، وابت امهن إلا لزومهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: اتعجبون لرحم ام الافراخ فراخها؟ قالوا: نعم يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فوالذي بعثني بالحق، لله ارحم بعباده من ام الافراخ بفراخها، ارجع بهن حتى تضعهن من حيث اخذتهن، وامهن معهن، فرجع بهن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ أَبُو مَنْظُورٍ،عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ أَخِي الْخَضِرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد، قَالَ النُّفَيْلِيُّ: هُوَ الْخَضِرُ، وَلَكِنْ كَذَا قَالَ، قَالَ: إِنِّي لَبِبِلَادِنَا إِذْ رُفِعَتْ لَنَا رَايَاتٌ وَأَلْوِيَةٌ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا لِوَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، وَهُوَ تَحْتَ شَجَرَةٍ قَدْ بُسِطَ لَهُ كِسَاءٌ، وَهُوَ جَالِسٌ عَلَيْهِ، وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ، فَذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَسْقَامَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السَّقَمُ، ثُمَّ أَعْفَاهُ اللَّهُ مِنْهُ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ، وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مَرِضَ ثُمَّ أُعْفِيَ كَانَ كَالْبَعِيرِ، عَقَلَهُ أَهْلُهُ، ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ يَدْرِ لِمَ عَقَلُوهُ، وَلَمْ يَدْرِ لِمَ أَرْسَلُوهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِمَّنْ حَوْلَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْأَسْقَامُ؟ وَاللَّهِ مَا مَرِضْتُ قَطُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ عَنَّا، فَلَسْتَ مِنَّا، فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَيْهِ كِسَاءٌ، وَفِي يَدِهِ شَيْءٌ قَدِ الْتَفَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُكَ أَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَمَرَرْتُ بِغَيْضَةِ شَجَرٍ، فَسَمِعْتُ فِيهَا أَصْوَاتَ فِرَاخِ طَائِرٍ، فَأَخَذْتُهُنَّ فَوَضَعْتُهُنَّ فِي كِسَائِي، فَجَاءَتْ أُمُّهُنَّ فَاسْتَدَارَتْ عَلَى رَأْسِي، فَكَشَفْتُ لَهَا عَنْهُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِنَّ مَعَهُنَّ، فَلَفَفْتُهُنَّ بِكِسَائِي، فَهُنَّ أُولَاءِ مَعِي، قَالَ: ضَعْهُنَّ عَنْكَ، فَوَضَعْتُهُنَّ، وَأَبَتْ أُمُّهُنَّ إِلَّا لُزُومَهُنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: أَتَعْجَبُونَ لِرُحْمِ أُمِّ الْأَفْرَاخِ فِرَاخَهَا؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ أُمِّ الْأَفْرَاخِ بِفِرَاخِهَا، ارْجِعْ بِهِنَّ حَتَّى تَضَعَهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُنَّ، وَأُمُّهُنَّ مَعَهُنَّ، فَرَجَعَ بِهِنَّ".
خضر کے تیر انداز بھائی عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا ذکر فرمایا: جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہیں؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔ عامر کہتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں آ گئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو یہاں رکھو، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو؟، صحابہ نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5056) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابو منظور شامی مجہول ہیں)

وضاحت:
۱؎: یعنی میں بھی ان کے حلقے میں شریک ہو گیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سنوں اور دیکھوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔
۲؎:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہدیدا فرمایا، یعنی مومن پر کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور آتی ہے، تاکہ آخرت میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہو، اس کے برخلاف کافروں کو اکثر دنیا میں راحت رہتی ہے، تاکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ رہے، جو کچھ انہیں ملنا ہے دنیا ہی میں مل جائے۔

Narrated Amir ar-Ram: We were in our country when flags and banners were raised. I said: What is this? The (the people) said: This is the banner of the Messenger of Allah ﷺ. So I came to him. He was (sitting) under a tree. A sheet of cloth was spread for him and he was sitting on it. His Companions were gathered around him. I sat with them. The Messenger of Allah ﷺ mentioned illness and said: When a believer is afflicted by illness and Allah cures him of it, it serves as an atonement for his previous sins and a warning to him for the future. But when a hypocrite becomes ill and is then cured, he is like a camel which has been tethered and then let loose by its owners, but does not know why they tethered it and why they let it loose. A man from among those around him asked: Messenger of Allah, what are illnesses? I swear by Allah, I never fell ill. The Messenger of Allah ﷺ said: Get up and leave us. You do not belong to our number. When we were with him, a man came to him. He had a sheet of cloth and something in his hand. He turned his attention to him and said: Messenger of Allah, when I saw you, I turned towards you. I saw a group of trees and heard the sound of fledglings. I took them and put them in my garment. Their mother then came and began to hover round my head. I showed them to her, and she fell on them. I wrapped them with my garment. They are now with me. He said: Put them away from you. So I put them away, but their mother stayed with them. The Messenger of Allah ﷺ said to his companions: Are you surprised at the affection of the mother for her young? They said: Yes, Messenger of Allah. He said: I swear by Him Who has sent me with the Truth, Allah is more affectionate to His servants than a mother to her young ones. Take them back put them and where you took them from when their mother should have been with them. So he took them back.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3083


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو منظور الشامي مجهول: (تقريب التهذيب: 8394) والسند مظلم
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 114
حدیث نمبر: 3090
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، وإبراهيم بن مهدي المصيصي، المعنى قالا: حدثنا ابو المليح، عن محمد بن خالد، قال ابو داود، قال إبراهيم بن مهدي السلمي عن ابيه، عن جده، وكانت له صحبة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن العبد إذا سبقت له من الله منزلة، لم يبلغها بعمله، ابتلاه الله في جسده، او في ماله، او في ولده"، قال ابو داود: زاد ابن نفيل، ثم صبره على ذلك، ثم اتفقا حتى يبلغه المنزلة التي سبقت له من الله تعالى.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْمِصِّيصِيُّ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ السَّلَمِيُّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَنْزِلَةٌ، لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ، ابْتَلَاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ، أَوْ فِي مَالِهِ، أَوْ فِي وَلَدِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: زَادَ ابْنُ نُفَيْلٍ، ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ اتَّفَقَا حَتَّى يُبْلِغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى.
خالد سلمی اپنے والد سے (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ مل جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15562)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/272) (صحیح)» ‏‏‏‏ (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ اس کے اندر محمد بن خالد اور ان کے والد خالد سلمی دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، نمبر: 2599)

Narrated Muhammad ibn Khalid as-Sulami: on his father's authority said his grandfather reported: He was a Companion of the Messenger of Allah ﷺ said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: When Allah has previously decreed for a servant a rank which he has not attained by his action, He afflicts him in his body, or his property or his children. Abu Dawud said: Ibn Nufail added in his version: "He then enables him to endure that. " The agreed version goes: "So that He may bring him to the rank previously decreed from him by Allah. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3084


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (1568)
وللحديث شاھد عند أبي يعلٰي الموصلي (10/482 ح 6095 وسنده حسن)
حدیث نمبر: 3092
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سهل بن بكار، عن ابي عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن ام العلاء، قالت: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانا مريضة، فقال:" ابشري يا ام العلاء، فإن مرض المسلم يذهب الله به خطاياه، كما تذهب النار خبث الذهب والفضة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ، قَالَتْ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا مَرِيضَةٌ، فَقَالَ:" أَبْشِرِي يَا أُمَّ الْعَلَاءِ، فَإِنَّ مَرَضَ الْمُسْلِمِ يُذْهِبُ اللَّهُ بِهِ خَطَايَاهُ، كَمَا تُذْهِبُ النَّارُ خَبَثَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ".
ام العلاء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میں بیمار تھی تو میری عیادت کی، آپ نے فرمایا: خوش ہو جاؤ، اے ام العلاء! بیشک بیماری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے آگ سونے اور چاندی کے میل کو دور کر دیتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18339) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Umm al-Ala: The Messenger of Allah ﷺ visited me while I was sick. He said: Be glad, Umm al-Ala for Allah removes the sins of a Muslim for his illness as fire removes the dross of gold and silver.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3086


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
انظر المعجم الكبير للطبراني (10/186 ح 10406 وسنده حسن) وھو يغني عنه (معاذ علي زئي)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.