Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying “ A man should not seek the hand of a woman in marriage when his brother has already sought her hand. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2075
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2140) صحيح مسلم (1413)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا عبد الله بن نمير، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يخطب احدكم على خطبة اخيه، ولا يبيع على بيع اخيه، إلا بإذنه". قال سفيان: لا يبيع على بيع صاحبه يقول عندي خير منها. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، وَلَا يَبِيعْ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، إِلَّا بِإِذْنِهِ". قالَ سُفْيَانُ: لا يَبِيعُ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ يَقُولُ عِنْدِي خَيْرٌ مِنْهَا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہ تو اپنے بھائی کے نکاح کے پیغام پر پیغام دے اور نہ اس کے سودے پر سودا کرے البتہ اس کی اجازت سے درست ہے ۱؎۔“
وضاحت: ۱؎: یعنی جب ایک مسلمان کی کسی جگہ شادی طے ہو، تو دوسرے کے لئے وہاں پیغام دینا جائز نہیں، کیونکہ اس میں دوسرے مسلمان کی حق تلفی ہوتی ہے، اور اگر ابھی نسبت طے نہیں ہے، تو پیغام دینے میں کوئی مضائقہ و حرج نہیں۔
Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet ﷺ said: One of you must not ask a woman in marriage when his brother has done so already, and one of you must not sell (his own goods) when his brother has already sold (his goods) except with his permission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2076
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5142) صحيح مسلم (1412)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 71 (2168)، صحیح مسلم/البیوع 5 (1517)، سنن النسائی/البیوع 18 (4507)، سنن ابن ماجہ/التجارات (2179)، (تحفة الأشراف: 8329، 8059)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ البیوع 45 (95)، مسند احمد (2/7، 22، 63، 91) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک کے خریدار کو دوسرا نہ بلائے، یا اس کے گاہک کو نہ توڑے، مثلا، یہ کہے کہ یہ اتنے میں دے رہا ہے، تو چل میرے ساتھ میں تجھے یہی مال اس سے اتنے کم میں دے دوں گا۔ ۲؎: چونکہ تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہو گا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔
Narrated Abdullah bin Umar: The Messenger of Allah ﷺ as saying: None of you must buy in opposition to one another ; and do not go out to meet the merchandise, (but one must wait) till it is brought down to the market.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3429
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2139، 2165) صحيح مسلم (1412 بعد ح 1514)
(مرفوع) حدثنا الربيع بن نافع ابو توبة، حدثنا عبيد الله يعني ابن عمرو الرقي، عن ايوب، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن تلقي الجلب فإن تلقاه متلق مشتر، فاشتراه، فصاحب السلعة بالخيار إذا وردت السوق"، قال ابو علي: سمعت ابا داود، يقول: قال سفيان: لا يبع بعضكم على بيع بعض، ان يقول: إن عندي خيرا منه بعشرة. (مرفوع) حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو الرَّقِّيَّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ تَلَقِّي الْجَلَبِ فَإِنْ تَلَقَّاهُ مُتَلَقٍّ مُشْتَرٍ، فَاشْتَرَاهُ، فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ بِالْخِيَارِ إِذَا وَرَدَتِ السُّوقَ"، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ، يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ: لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، أَنْ يَقُولَ: إِنَّ عِنْدِي خَيْرًا مِنْهُ بِعَشَرَةٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے پاس اس سے بہتر مال دس روپے میں مل جائے گا۔
Abu Hurairah said: Do not go our to meet what is being brought (to market for sale). If anyone does so and buys some of it, the owner of merchandise has a choice (of canceling the deal) when it comes to the market. Abu Ali said: I heard Abu Dawud say: Sufyan said: none of you must buy in opposition to one another ; that is he says: I have a better one for ten (dirhams).
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3430
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه الترمذي (1221 وسنده صحيح) ورواه مسلم (1519)
وضاحت: ۱؎: نجش یہ ہے کہ بیچی جانے والی چیز کی تعریف کر کے بائع کی موافقت کی جائے، یا خریداری کا ارادہ نہ ہو لیکن دوسرے کو پھنسانے کے لئے بیچنے والے کے سامان کی قیمت بڑھا دی جائے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين، بعد ان يحلبها فإن رضيها امسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، بَعْدَ أَنْ يَحْلُبَهَا فَإِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجارتی قافلوں سے آگے بڑھ کر نہ ملو ۱؎، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اور اونٹ و بکری کا تصریہ ۲؎ نہ کرو جس نے کوئی ایسی بکری یا اونٹنی خریدی تو اسے دودھ دوہنے کے بعد اختیار ہے، چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو پسند کر کے اسے واپس کر دے، اور ساتھ میں ایک صاع کھجور دیدے ۳؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 64 (2150)، صحیح مسلم/البیوع 4 (1515)، سنن النسائی/ البیوع 15 (4501)، سنن ابن ماجہ/التجارات 13 (2172)، (تحفة الأشراف: 13802)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 13 (1223)، موطا امام مالک/البیوع 45 (96)، مسند احمد (2/379، 465) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مال بازار میں پہنچنے سے پہلے راستہ میں مالکان سے مل کر سودا نہ طے کر لو۔ ۲؎: تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو تصریہ کہتے ہیں تا کہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ۳؎: کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جا سکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراو ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جارہی ہے اس لئے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل وقال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے۔
Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not go out to meet riders to conduct business with them ; none of you must buy in opposition to one another; and do not tie up the udders of camels and sheep, for he who buys them after that has been done has two courses open to him after milking them: he may keep them if he is pleased with them, or he may return them along with a sa' of dates is he is displeased with them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3436
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2150) صحيح مسلم (1515)