سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
24. باب مَنْ يُعْطَى مِنَ الصَّدَقَةِ وَحَدِّ الْغِنَى
24. باب: زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟
Chapter: To Whom Zakat Is To Be Paid And The Definition Of A Wealthy Person.
حدیث نمبر: 1626
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا سفيان، عن حكيم بن جبير، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد، عن ابيه، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سال وله ما يغنيه جاءت يوم القيامة خموش او خدوش او كدوح في وجهه"، فقال: يا رسول الله، وما الغنى؟ قال:" خمسون درهما او قيمتها من الذهب". قال يحيى: فقال عبد الله بن عثمان لسفيان حفظي: ان شعبة لا يروي عن حكيم بن جبير، فقال سفيان: حدثناه زبيد، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْغِنَى؟ قَالَ:" خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ". قَالَ يَحْيَى: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ لِسُفْيَانَ حِفْظِي: أَنَّ شُعْبَةَ لَا يَرْوِي عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ سُفْيَانُ: حَدَّثَنَاهُ زُبَيْدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے اور اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے اس سوال سے مستغنی اور بے نیاز کرتی ہو تو قیامت کے روز اس کے چہرے پر خموش یا خدوش یا کدوح یعنی زخم ہوں گے، لوگوں نے سوال کیا: اللہ کے رسول! کتنے مال سے آدمی غنی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے ہوں۔ یحییٰ کہتے ہیں: عبداللہ بن عثمان نے سفیان سے کہا: مجھے یاد ہے کہ شعبہ حکیم بن جبیر سے روایت نہیں کرتے ۱؎ تو سفیان نے کہا: ہم سے اسے زبید نے محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 22 (650)، سنن النسائی/الزکاة 87 (2593)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 26 (1840)، (تحفة الأشراف: 9387)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 441)، سنن الدارمی/الزکاة 15 (1680) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی حکیم بن جبیر ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت زبید کر رہے ہیں جس سے یہ ضعف جاتا رہا۔

Narrated Abdullah ibn Masud: The Prophet ﷺ said: He who begs (from people) when he is affluent will come on the Day of Resurrection with scrapes, scratchings, or lacerations on his face. He was asked: What constitutes affluence, Messenger of Allah? He replied: It is fifty dirhams or its value in gold. The narrator Yahya said: Abdullah ibn Sufyan said to Sufyan: I remember that Shubah does not narrate from Hakim ibn Jubayr. Sufyan said: Zubayr transmitted to us this tradition from Muhammad ibn Abdur Rahman ibn Yazid.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1622


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (650،651) نسائي (2593) ابن ماجه (1840)
حكيم بن جبير ضعيف كما قال النسائي (الضعفاء: 129) وغيره،
انظر تحفة الأقوياء (83) و قال العيني: ضعفه الجمھور (عمدة القاري 95/11) و قال الھيثمي: ھو متروك،ضعفه الجمھور(مجمع الزوائد 320/5،وفي المطبوع: حكيم بن عبيد وھو خطأ والصواب: حكيم بن جبير) وللثوري (130) فيه تدليس عجيب لأنه لم يذكر السند إلٰي آخره!
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 66
حدیث نمبر: 1627
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن رجل من بني اسد، انه قال: نزلت انا واهلي ببقيع الغرقد، فقال لي اهلي: اذهب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله لنا شيئا ناكله فجعلوا يذكرون من حاجتهم، فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدت عنده رجلا يساله ورسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا اجد ما اعطيك"، فتولى الرجل عنه وهو مغضب، وهو يقول: لعمري إنك لتعطي من شئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يغضب علي ان لا اجد ما اعطيه، من سال منكم وله اوقية او عدلها فقد سال إلحافا"، قال الاسدي: فقلت للقحة: لنا خير من اوقية والاوقية اربعون درهما، قال: فرجعت ولم اساله، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك شعير وزبيب فقسم لنا منه، او كما قال: حتى اغنانا الله عز وجل. قال ابو داود: هكذا رواه الثوري كما قال مالك.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَنَّهُ قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَقَالَ لِي أَهْلِي: اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ فَجَعَلُوا يَذْكُرُونَ مِنْ حَاجَتِهِمْ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيكَ"، فَتَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ وَهُوَ مُغْضَبٌ، وَهُوَ يَقُولُ: لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ، مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا"، قَالَ الْأَسَدِيُّ: فَقُلْتُ لَلِقْحَةٌ: لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ، فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ فَقَسَمَ لَنَا مِنْهُ، أَوْ كَمَا قَالَ: حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ كَمَا قَالَ مَالِكٌ.
بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے کچھ مانگ کر لاؤ جو ہم کھائیں، پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے اوپر اس لیے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ۱؎، اسدی کہتے ہیں: میں نے (اپنے جی میں) کہا: ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا، «أو كما قال» یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 90 (2597)، (تحفة الأشراف:15640)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصدقة 1(3)، مسند احمد (4/36،5/430) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث میں الحاف ہے یعنی الحاح اور شدید اصرار، ایسا سوال کرنا قرآن کے مطابق ناپسندیدہ عمل ہے۔

Ata bin Yasar said: A man from Banu Asad said: I and my family alighted at Baqi al-Gharqad. My wife said to me: Go the Messenger of Allah ﷺ and beg something from him for our eating, and made a mention of there need. So I went to the Messenger of Allah ﷺ. I found with a man who was begging from him and he was saying to him: I have nothing to give you. The man turned away from him in anger while he was saying: By my life, you give anyone you wish. The Messenger of Allah ﷺ said: He’s anger with me, for I have nothing to give him. If any of you begs when he has an Uqiyah or its equivalent, he has begged immoderately. The man of Banu Asad said: So I said: The she camel of ours is better than an uqiyah, while an uqiyah is equivalent to 40 Dirhams. I therefore returned and did not beg from him. Afterwards some barley and raisins where brought to the Messenger of Allah ﷺ. He gave us a share from them (or as he reported)till Allah, the Exalted, made us self-sufficient (i. e well off). Abu Dawud said: Al-Thawri narrated it as Malik narrated.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1623


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (1849)
أخرجه النسائي (2597 وسنده صحيح)
حدیث نمبر: 1628
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، وهشام بن عمار، قالا: حدثنا عبد الرحمن بن ابي الرجال، عن عمارة بن غزية، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري، عن ابيه ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سال وله قيمة اوقية فقد الحف"، فقلت: ناقتي الياقوتة هي خير من اوقية، قال هشام: خير من اربعين درهما فرجعت فلم اساله شيئا، زاد هشام في حديثه: وكانت الاوقية على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعين درهما.
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ"، فَقُلْتُ: نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ هِيَ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ، قَالَ هِشَامٌ: خَيْرٌ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَرَجَعْتُ فَلَمْ أَسْأَلْهُ شَيْئًا، زَادَ هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ: وَكَانَتِ الْأُوقِيَّةُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا.
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحاف کیا، میں نے (اپنے جی میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ (ہشام کی روایت میں ہے: چالیس درہم سے بہتر ہے)، چنانچہ میں لوٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ۱؎۔ ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 89 (2596)، (تحفة الأشراف:4121)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/9) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگنے کے لئے بھیجا تھا جیسا کہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے۔

Narrated Abu Saeed al-Khudri: The Prophet ﷺ said: If anyone begs when he has something equivalent to an uqiyah in value, he has begged immoderately. So I said: My she-camel, Yaqutah, is better than an uqiyah. The version of Hisham goes: "better than forty dirhams. So I returned and did not beg anything from him. " Hisham added in his version: "An uqiyah during the time of the Messenger of Allah ﷺ was equivalent to forty dirhams. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1624


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه النسائي (2596 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (2447 وسنده حسن)
حدیث نمبر: 1629
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا مسكين، حدثنا محمد بن المهاجر، عن ربيعة بن يزيد، عن ابي كبشة السلولي، حدثنا سهل ابن الحنظلية، قال: قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم عيينة بن حصن و الاقرع بن حابس فسالاه، فامر لهما بما سالا، وامر معاوية فكتب لهما بما سالا، فاما الاقرع فاخذ كتابه فلفه في عمامته وانطلق، واما عيينة فاخذ كتابه واتى النبي صلى الله عليه وسلم مكانه، فقال: يا محمد، اتراني حاملا إلى قومي كتابا لا ادري ما فيه كصحيفة المتلمس؟ فاخبر معاوية بقوله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سال وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر من النار"، وقال النفيلي في موضع آخر: من جمر جهنم، فقالوا: يا رسول الله، وما يغنيه؟ وقال النفيلي في موضع آخر: وما الغنى الذي لا تنبغي معه المسالة، قال:" قدر ما يغديه ويعشيه"، وقال النفيلي في موضع آخر:" ان يكون له شبع يوم وليلة او ليلة ويوم"، وكان حدثنا به مختصرا على هذه الالفاظ التي ذكرت.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ وَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ فَسَأَلَاهُ، فَأَمَرَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا، وَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ فَكَتَبَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا، فَأَمَّا الْأَقْرَعُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ فَلَفَّهُ فِي عِمَامَتِهِ وَانْطَلَقَ، وَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتُرَانِي حَامِلًا إِلَى قَوْمِي كِتَابًا لَا أَدْرِي مَا فِيهِ كَصَحِيفَةِ الْمُتَلَمِّسِ؟ فَأَخْبَرَ مُعَاوِيَةُ بِقَوْلِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنَ النَّارِ"، وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: مِنْ جَمْرِ جَهَنَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا يُغْنِيهِ؟ وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: وَمَا الْغِنَى الَّذِي لَا تَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ، قَالَ:" قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ"، وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:" أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبْعُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ"، وَكَانَ حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا عَلَى هَذِهِ الْأَلْفَاظِ الَّتِي ذَكَرْتُ.
ابوکبشہ سلولی کہتے ہیں ہم سے سہل بن حنظلیہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس آئے، انہوں نے آپ سے مانگا، آپ نے انہیں ان کی مانگی ہوئی چیز دینے کا حکم دیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے لیے خط لکھ دیں جو انہوں نے مانگا ہے، اقرع نے یہ خط لے کر اسے اپنے عمامے میں لپیٹ لیا اور چلے گئے لیکن عیینہ خط لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: محمد! کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کے پاس ایسا خط لے کر جاؤں جو متلمس ۱؎ کے صحیفہ کی طرح ہو، جس کا مضمون مجھے معلوم نہ ہو؟ معاویہ نے ان کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے اس حال میں کہ اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے سوال سے بے نیاز کر دیتی ہو تو وہ جہنم کی آگ زیادہ کرنا چاہ رہا ہے۔ (ایک دوسرے مقام پر نفیلی نے جہنم کی آگ کے بجائے جہنم کا انگارہ کہا ہے)۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس قدر مال آدمی کو غنی کر دیتا ہے؟ (نفیلی نے ایک دوسرے مقام پر کہا: غنی کیا ہے، جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہیئے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتنی مقدار جسے وہ صبح و شام کھا سکے۔ ایک دوسری جگہ میں نفیلی نے کہا: اس کے پاس ایک دن اور ایک رات یا ایک رات اور ایک دن کا کھانا ہو، نفیلی نے اسے مختصراً ہم سے انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کیا جنہیں میں نے ذکر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:4652)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/180، 181) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: متلمس ایک شاعر گزرا ہے، اس نے بادشاہ عمرو بن ہند کی ہجو کی تھی، بادشاہ نے کمال ہوشیاری سے اپنے عامل کے نام خط لکھ کر اس کو دیا اور کہا کہ تم اس لفافے کو لے کر فلاں عامل کے پاس جاؤ، وہ تمہیں انعام سے نوازے گا، خط میں ہجو کے جرم میں اسے قتل کر دینے کا حکم تھا، راستہ میں متلمس کو شبہہ ہوا، اس نے لفافہ پھاڑ کر خط پڑھا تو اس میں اس کے قتل کا حکم تھا، چنانچہ اس نے خط پھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی جان بچا لی۔

Narrated Sahl ibn Hanzaliyyah: Uyaynah ibn Hisn and Aqra ibn Habis came to the Messenger of Allah ﷺ. They begged from him. He commanded to give them what they begged. He ordered Muawiyah to write a document to give what they begged. Aqra took his document, wrapped it in his turban, and went away. As for Uyaynah, he took his document and came to the Prophet ﷺ at his home, and said to him: Muhammad, do you see me? I am taking a document to my people, but I do not know what it contains, just like the document of al-Mutalammis. Muawiyah informed the Messenger of Allah ﷺ of his statement. Thereupon the Messenger of Allah ﷺ said: He who begs (from people) when he has sufficient is simply asking for a large amount of Hell-fire. (An-Nufayl (a transmitter) said elsewhere: "embers of Hell". ) They asked: Messenger of Allah, what is a sufficiency? (Elsewhere an-Nufayl said: What is a sufficiency which makes begging unfitting?) He replied: It is that which would provide a morning and an evening meal. (Elsewhere an-Nufayl said: It is when one has enough for a day and night, or for a night and a day. ) He (an-Nufayl) narrated to us this tradition briefly in the words that I have mentioned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1625


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (1848)
صححه ابن خزيمة (2391 وسنده صحيح، 2545)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.