(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا الاسود بن قيس، حدثني ثعلبة بن عباد العبدي من اهل البصرة، انه شهد خطبة يوما لسمرة بن جندب، قال: قال سمرة: بينما انا وغلام من الانصار نرمي غرضين لنا حتى إذا كانت الشمس قيد رمحين او ثلاثة في عين الناظر من الافق اسودت حتى آضت كانها تنومة، فقال احدنا لصاحبه: انطلق بنا إلى المسجد، فوالله ليحدثن شان هذه الشمس لرسول الله صلى الله عليه وسلم في امته حدثا، قال: فدفعنا، فإذا هو بارز" فاستقدم، فصلى، فقام بنا كاطول ما قام بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا، قال: ثم ركع بنا كاطول ما ركع بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا، ثم سجد بنا كاطول ما سجد بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، قال: فوافق تجلي الشمس جلوسه في الركعة الثانية، قال: ثم سلم، ثم قام فحمد الله واثنى عليه، وشهد ان لا إله إلا الله وشهد انه عبده ورسوله"، ثم ساق احمد بن يونس خطبة النبي صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ: بَيْنَمَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنْ الْأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الْأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ" فَاسْتَقْدَمَ، فَصَلَّى، فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسُ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، ثُمَّ سَاقَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اسود بن قیس کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن عباد عبدی (جو اہل بصرہ میں سے ہیں) نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر رہے، سمرہ رضی اللہ عنہ نے (خطبہ میں) کہا: میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو نیزہ یا تین نیزہ کے برابر رہ گیا تو اسی دوران وہ دفعۃً سیاہ ہو گیا پھر گویا وہ تنومہ ۱؎ ہو گیا، تو ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: تم ہمارے ساتھ مسجد چلو کیونکہ اللہ کی قسم سورج کا یہ حال ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، تو ہم چلے تو دیکھتے ہیں کہ مسجد بھری ۲؎ ہے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی، اور ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی نماز میں اتنا لمبا قیام نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ اتنا لمبا رکوع کیا کہ اتنا لمبا رکوع کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۳؎ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی بھی کسی نماز میں ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دوسری رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج روشن ہو گیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور گواہی دی کہ ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“، پھر احمد بن یونس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا خطبہ بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 280 (الجمعة 45) (562)، سنن النسائی/الکسوف 15 (1485)، 19 (1496)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 152 (1264)، (تحفة الأشراف: 4573)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/14، 16، 17، 19، 23) (ضعیف)» (اس کے راوی ثعلبہ لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ ایک قسم کا پودا ہے جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ ۲؎: «فإذا هو بَارِزٌ» میں غلطی ہوئی ہے، صحیح «فإذا هو بأُزُزٍ» ہے، «أُزُزْ» جس کے معنی بھیڑ اور بڑے مجمع کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ لوگ مسجد میں جمع ہیں اور وہ بھری ہوئی ہے۔ ۳؎: ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کو قرات کی آواز دور ہونے کے سبب سنائی نہ دے رہی ہو، ویسے یہ حدیث ضعیف ہے صحیح روایات میں جہری قرات کا تذکرہ موجود ہے۔
Narrated Samurah ibn Jundub: When, a boy from the Ansar and I were shooting (arrows) towards two of our targets, the sun was sighted by the people at the height of two or three lances above the horizon. It became black like the black herb called tannumah. One of us said to his companion: Let us go to the mosque; by Allah, this incident of the sun will surely bring something new in the community of the Messenger of Allah ﷺ. As we reached it, we suddenly saw that he (the Prophet) had already come out (of his house). He stepped forward for a long time as much as he could do so in the prayer. But we did not hear his voice. He then performed a bowing and prolonged it as much as he could do in the prayer. But we did not hear his voice. He then prostrated himself with us and prolonged it which he never did in the prayer before. But we did not hear his voice. He then did similarly in the second rak'ah. The sun became bright when he sat after the second rak'ah. Then he uttered the salutation. He then stood up, praised Allah, and extolled Him, and testified that there was no god but Allah and testified that he was His servant and Messenger. Ahmad ibn Yunus then narrated the address of the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1180
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1490) أخرجه الترمذي (562 وسنده حسن) والنسائي (1485 وسنده حسن) وصححه ابن خزيمة (1397 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا ابن السرح، اخبرنا ابن وهب. ح وحدثنا محمد بن سلمة المرادي /a>، حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: خسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم" فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، فقام، فكبر، وصف الناس وراءه، فاقترا رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر، فركع ركوعا طويلا، ثم رفع راسه، فقال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم قام فاقترا قراءة طويلة هي ادنى من القراءة الاولى، ثم كبر فركع ركوعا طويلا هو ادنى من الركوع الاول، ثم قال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك فاستكمل اربع ركعات واربع سجدات، وانجلت الشمس قبل ان ينصرف". (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ /a>، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خُسِفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ، فَكَبَّرَ، وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرات کی پھر «الله أكبر» کہہ کر لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر کھڑے رہے اور لمبی قرآت کی، اور یہ پہلی قرآت سے کچھ مختصر تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہہ کر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، (پھر رکوع سے سر اٹھایا) اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس طرح (دو رکعت میں) آپ نے پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے، اور آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے سورج روشن ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکسوف 4 (1046)، 5 (1047)، 13 (1058)، والعمل في الصلاة 11 (1212)، وبدء الخلق 4 (3199)، صحیح مسلم/ الکسوف 1 (901)، سنن النسائی/ الکسوف 11 (1476)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 152 (1263)، (تحفة الأشراف: 16692)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/ الصلاة 279 (الجمعة 44) (561)، موطا امام مالک/صلاة الکسوف 1 (1)، مسند احمد (6/76، 78، 164، 168)، سنن الدارمی/ الصلاة 187 (1568) (صحیح)»
Narrated Aishah (May Allah be pleased with her): There was an eclipse of the sun during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺcame tot he mosque; he stood up and uttered the takbir (Allah is great); the people stood in rows behind him; the Messenger of Allah ﷺ recited from the Quran for a long time; then he uttered the takbir (Allah is most great) and performed bowing for a long time, then he raised his head and said: Allah listens to him who praises Him; our Lord, and to Thee be praise; then he stood up and recited from the Quran for a long time, but it was less than the first (recitation); he then bowed for a long time, but it was less than the first bowing; he then said, Allah listens to him who praises Him; our Lord, and to Thee be praise. he then did so in the second rak'ah. he thus completed four bowings and four prostrations. The sun had become bright before he departed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1176
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1046) صحيح مسلم (901)
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن سعد، حدثنا عمي، حدثنا ابي، عن محمد بن إسحاق، حدثني هشام بن عروة، وعبد الله بن ابي سلمة، عن سليمان بن يسار، كلهم قد حدثني، عن عروة، عن عائشة، قالت: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس، فقام فحزرت قراءته، فرايت انه قرا بسورة البقرة، وساق الحديث، ثم سجد سجدتين، ثم قام فاطال القراءة فحزرت قراءته، فرايت انه قرا بسورة آل عمران". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، كُلُّهُمْ قَدْ حَدَّثَنِي، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ، فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ، فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تو میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو مجھے لگا کہ آپ نے سورۃ البقرہ کی قرآت کی ہے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی، میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورۃ آل عمران کی قرآت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16345، 16352، 17185)، وقد أخرجہ: (حم 6/32) (حسن) صححه الحاكم (1/ 333)»
Narrated Aishah: There was an eclipse of the sun in the time of the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ came out and led the people in prayer. he stood up and I guessed that he recited Surah al-Baqarah. The narrator then further transmitted the tradition. He (the Prophet) then prostrated himself twice, and then stood up and prolonged the recitation. then I guessed his recitation and knew that he recited Surah Al-i-Imran.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1183
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن انظر الحديث الآتي (1191)
Narrated Aishah (May Allah be pleased with her): The Messenger of Allah (may peace be upon on him) recited from teh Quran in a loud voice in the prayer at an eclipse.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1184
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أصله عند البخاري (1066) ومسلم (901)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة كذا عند القاضي، والصواب، عن ابن عباس، قال: خسفت الشمس" فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقام قياما طويلا بنحو من سورة البقرة، ثم ركع"، وساق الحديث. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ كَذَا عِنْدَ الْقَاضِي، وَالصَّوَابُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خُسِفَتِ الشَّمْسُ" فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا بِنَحْوٍ مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ"، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ البقرہ کی قرآت کے برابر طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ الصلاة 51 (431)، الکسوف 9 (1052)، صحیح مسلم/الکسوف 3 (907)، سنن النسائی/الکسوف 17 (1494)، (تحفة الأشراف: 5977)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/298، 358) (صحیح)»
Narrated Ibn Abbas: An eclipse of the sun took place. the Messenger of Allah ﷺ prayed along with the people. He stood up for a long time nearly equal to the recitation of Surah al Baqarah. H then bowed. The narrator then transmitted the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1185
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1052) صحيح مسلم (907)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز (کسوف) جماعت سے ہو گی۔
Narrated Aishah (May Allah be pleased with her): There was an eclipse of the sun. The Messenger of Allah ﷺ commanded a man who summoned: "The prayer will be held in congregation"
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1186
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1066) صحيح مسلم (901)
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ دو دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے متعلق پوچھتے جاتے یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الکسوف 16 (1486)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 152 (1262)، (تحفة الأشراف: 11631)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/267، 269، 271، 277) (منکر)» (دیکھئے حدیث نمبر: 1185)
Narrated An-Numan ibn Bashir: There was an eclipse of the sun in the time of the Prophet ﷺ. He began to pray a series of pairs of rak'ahs enquiring about the sun (at the end of them) till it became clear.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1189
قال الشيخ الألباني: منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف نسائي (1486) ابن ماجه (1262) قال البيهقي: ”ھذا مرسل،أبو قلابة لم يسمع من النعمان بن بشير،إنما رواه عن رجل عن النعمان‘‘ (3/ 333) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 52
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم" فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يكد يركع، ثم ركع فلم يكد يرفع، ثم رفع فلم يكد يسجد، ثم سجد فلم يكد يرفع، ثم رفع فلم يكد يسجد، ثم سجد فلم يكد يرفع، ثم رفع، وفعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، ثم نفخ في آخر سجوده، فقال: اف اف، ثم قال: رب الم تعدني ان لا تعذبهم وانا فيهم، الم تعدني ان لا تعذبهم وهم يستغفرون"، ففرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته وقد امحصت الشمس، وساق الحديث. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْكَعُ، ثُمَّ رَكَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ، وَفَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ نَفَخَ فِي آخِرِ سُجُودِهِ، فَقَالَ: أُفْ أُفْ، ثُمَّ قَالَ: رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ، أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ"، فَفَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا، تو آپ نماز کسوف کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع ہی نہیں کریں گے، پھر رکوع کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھائیں گے ہی نہیں، پھر سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر سجدے سے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، پھر اخیر سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھونک ماری اور ”اف اف“ کہا: پھر فرمایا: ”اے میرے رب! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں رہوں گا؟ کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے؟“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور حال یہ تھا کہ سورج بالکل صاف ہو گیا تھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الکسوف 14 (1483)، 20 (1497)، سنن الترمذی/الشمائل 44 (307)، (تحفة الأشراف: 8639)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الکسوف 3 (1045)، 8 (1058)، صحیح مسلم/الکسوف 5 (910)، مسند احمد (2/175) (صحیح)» (ہر رکعت میں دو رکوع کے ذکر کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے، جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے)
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: There was an eclipse of the sun in the time of the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ stood up and he was not going to perform bowing till he bowed; and he was not going to raise his head till he raised (after bowing); and he was not going to prostrate himself till he prostrated himself; and he was not going to raise his head till he raised (at the end of prostration); he did similarly in the second rak'ah, he then puffed in the last prostration saying; Fie, Fie! He then said: My Lord, didst Thou not promise me that Thou wouldst not punish them so long as I will remain among them? Didst Thou not promise me that Thou will not punish them so long as they continue to beg pardon of Thee. The Messenger of Allah ﷺ finished the prayer, and the sun was clear. The narrator then narrated the tradition (in full).
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1190
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن بذكر الركوع مرتين كما في الصحيحين
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا الجريري، عن حيان بن عمير، عن عبد الرحمن بن سمرة، قال: بينما انا اترمى باسهم في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كسفت الشمس فنبذتهن، وقلت: لانظرن ما احدث لرسول الله صلى الله عليه وسلم في كسوف الشمس اليوم؟ فانتهيت إليه وهو رافع يديه يسبح ويحمد ويهلل ويدعو حتى حسر عن الشمس، فقرا بسورتين وركع ركعتين". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَتَرَمَّى بِأَسْهُمٍ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ كُسِفَتِ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهُنَّ، وَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ مَا أَحْدَثَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفُ الشَّمْسِ الْيَوْمَ؟ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُو رَافِعٌ يَدَيْهِ يُسَبِّحُ وَيُحَمِّدُ وَيُهَلِّلُ وَيَدْعُو حَتَّى حُسِرَ عَنِ الشَّمْسِ، فَقَرَأَ بِسُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ".
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا کہ اسی دوران سورج گرہن لگا تو میں نے انہیں پھینک دیا اور کہا کہ میں ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ سورج گرہن آج کیا نیا واقعہ رونما کرے گا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے اللہ کی تسبیح، تحمید اور تہلیل اور دعا کر رہے تھے یہاں تک کہ سورج سے گرہن چھٹ گیا، اس وقت آپ نے (نماز کسوف کی دونوں رکعتوں) میں دو سورتیں پڑھیں اور دو رکوع کئے۔
Narrated Abdur-Rahman bin Samurah: During the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ I was shooting some arrows when an eclipse of the sun tok place. I, therefore, threw them (the arrows) away and said: I must see how the Messenger of Allah ﷺ acts in a solar eclipse today. So I came to him; he was standing (in prayer) raising his hands, glorifying Allah, praising Him, acknowledging that He is the only Deity, and making supplication till the sun was clear. He then recited two surahs and prayed two rak'ahs.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1191