حدثنا يوسف بن بهلول، قال: حدثنا ابن إدريس، عن ابن إسحاق، قال: حدثني بعض اصحابنا عن سعد بن إبراهيم، عن ابيه، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: قال امية بن خلف: يا عبد الإله، من الرجل منكم المعلم بريشة في صدره؟ قال: قلت «ذاك حمزة بن عبد المطلب» ، قال: ذاك الذي فعل بنا الافاعيل.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، مَنِ الرَّجُلُ مِنْكُمُ الْمُعَلَّمُ بِرِيشَةٍ فِي صَدْرِهِ؟ قَالَ: قُلْتُ «ذَاكَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ» ، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي فَعَلَ بِنَا الْأَفَاعِيلُ.
سعد نے اپنے باپ ابراہیم سے روایت کیا، انہوں نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، کہا: امیہ بن خلف نے کہا: اے عبدالالہ! تم میں سے کون ہے؟ جس کے سینے پر شتر مرغ کے پر کا نشان ہے؟ میں نے کہا: حمزہ بن عبدالمطلب، اس نے کہا: یہ تو وہ شخص ہے جس نے ہمارا یہ حال کیا ہے۔
حدثنا يوسف بن بهلول، قال: حدثنا ابن إدريس، قال: حدثنا ابن إسحاق، قال: حدثنا عباد بن عبد الله بن الزبير، عن ابيه، قال: حدثنيه عبد الرحمن بن ابي بكر، وغيره، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: كان امية بن خلف لي صديقا بمكة، وكان اسمي عبد عمرو، وتسميت حين اسلمت عبد الرحمن، وكان يلقاني بمكة فيقول: ارغبت عن اسم سماكه ابواك، فاقول: نعم، فيقول: فإني لا اعرف عبد الرحمن، فاجعل بيني وبينك شيئا ادعوك به، اما انت فلا تجبني باسمك الاول، واما انا فلا ادعوك بما لا اعرف، قال: قلت فاجعل يا ابا علي ما شئت، قال: فانت عبد الإله حتى إذا كان يوم بدر مررت به وهو واقف معه ابنه علي آخذ بيده قال [ص: 73]: ومعي ادراع قد استلبتها فانا احملها، فلما رآني قال: يا عبد عمرو، فلم اجبه، قال: يا عبد الإله، قال: قلت: نعم، قال: هل لك، فإنكم خير لك من هذه الادراع التي معك قال: قلت نعم هؤلاء خير، إذن فقال: فطرحت الادراع من يدي فاخذت بيده وبيد ابنه وهو يقول: ما رايت كاليوم اما لكم حاجة في اللبن؟ قال: ثم خرجت امشي بهما.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: كَانَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ لِي صَدِيقًا بِمَكَّةَ، وَكَانَ اسْمِي عَبْدُ عَمْرٍو، وَتَسَمَّيْتُ حِينَ أَسْلَمْتُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ يَلْقَانِي بِمَكَّةَ فَيَقُولُ: أَرَغِبْتَ عَنِ اسْمٍ سَمَّاكَهُ أَبَوَاكَ، فَأَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَاجْعَلْ بَيْنِي وَبَينَكَ شَيْئًا أَدْعُوكَ بِهِ، أَمَّا أَنْتَ فَلَا تُجِبْنِي بِاسْمِكَ الْأُوَّلَ، وَأَمَّا أَنَا فَلَا أَدْعُوكَ بِمَا لَا أَعْرِفُ، قَالَ: قُلْتُ فَاجْعَلْ يَا أَبَا عَلِيٍّ مَا شِئْتَ، قَالَ: فَأَنْتَ عَبْدُ الْإِلَهِ حَتَّى إِذَا كَانَ يَومُ بَدْرٍ مَرَرْتُ بِهِ وَهُوَ وَاقِفٌ مَعَهُ ابْنُهُ عَلِيٌّ آخِذٌ بِيَدِهِ قَالَ [ص: 73]: وَمَعِي أَدْرَاعٌ قَدِ اسْتَلَبْتُهَا فَأَنَا أَحْمِلُهَا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: يَا عَبْدَ عَمْرٍو، فَلَمْ أُجِبْهُ، قَالَ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ لَكَ، فَإِنَّكُمْ خَيْرٌ لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأَدْرَاعِ الَّتِي مَعَكَ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ هَؤُلَاءِ خَيْرٌ، إِذَنْ فَقَالَ: فَطَرَحَتُ الْأَدْرَاعَ مِنْ يَدِي فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَبِيَدِ ابْنِهِ وَهُوَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَومِ أَمَا لَكُمْ حَاجَةٌ فِي اللَّبَنِ؟ قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ أَمْشِي بِهِمَا.
عبدالرحمٰن بن ابی بکر وغیرہ نے سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ امیہ بن خلف مکہ میں میرا دوست تھا اور دور جاہلیت میں میرا نام عبد عمرو تھا، جب میں مسلمان ہوا تو اپنا نام تبدیل کر کے عبدالرحمٰن رکھ لیا، وہ مجھے مکہ میں ملتا تو مجھے کہتا: کیا تو اس نام کو اچھا نہیں جانتا جو تیرے والدین نے تیرا رکھا تھا، میں کہتا: جی ہاں، تو وہ کہتا: پس میں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا۔ بس مجھے کوئی خاص نام بتا دو جس سے میں تجھے پکارا کروں۔ پتا نہیں کہ تجھے کیا ہے کہ تیرا نام عبد عمرو پکارو ں تو تُو مجھے جواب ہی نہیں دیتا، اور مجھے بھی کوئی مصیبت نہیں آن پڑی کہ میں تجھے ایسے نام سے پکاروں جسے میں پہچانتا ہی نہیں؟ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے ابوعلی! جو تو چاہتا ہے وہ رکھ لے، اس نے کہا: میں تجھے ”عبدالالہ“ کہہ کے پکارا کروں گا (یعنی اس نے آپ کا نام ”عبد الالہ“ رکھ دیا) غزوہ بدر کے دن میں اس کے قریب سے گزرا اس وقت وہ اپنے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ اور میرے پاس کچھ زرہیں تھیں جنہیں میں نے کافروں سے چھینا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو کہا: اے عبد عمرو، میں نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے کہا: اے عبد الالہ، میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: میں تمہارے لیے ان زرہوں سے زیادہ بہتر ہوں، میں نے کہا: ہاں، تو میں نے اپنے ہاتھ سے زرہیں پھینک دیں اور اس کا اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا۔