سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ کاشت ہمارے ہاں ہوتی تھی ہم کھیت کرایہ پر لیا کرتے تھے، کرایہ کے بدلے اس کھیت کا ایک خاص حصہ مالک زمین کے نام کر دیا جاتا تھا (کہ جو کچھ اس میں پیدا ہو اس کو وہ زمین کے کرایہ میں لے لے) تو کبھی اس حصہ پر کوئی آفت آ جاتی تھی (اس وجہ سے اس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا) اور باقی کھیت محفوظ رہتا تھا اور کبھی باقی کھیت پر کوئی آفت آ جاتی تھی اور وہ حصہ محفوظ رہتا تھا تو ہمیں اس کی ممانعت کر دی گئی اور سونا یا چاندی (کرایہ میں دینا) اس وقت (رائج) نہ تھا۔