(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله، سمع انسا، قال:" وجدت النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد معه ناس، فقمت، فقال لي: اارسلك ابو طلحة؟ قلت: نعم، فقال: لطعام؟ قلت: نعم، فقال لمن حوله: قوموا، فانطلق، وانطلقت بين ايديهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِك، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، سَمِعَ أَنَسًا، قَالَ:" وَجَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ مَعَهُ نَاسٌ، فَقُمْتُ، فَقَالَ لِي: أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لِطَعَامٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ: قُومُوا، فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ سے انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور بھی کئی لوگ تھے۔ میں کھڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کھانے کے لیے؟ (بلایا ہے) میں نے عرض کی کہ جی ہاں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب موجود لوگوں سے فرمایا کہ چلو، سب حضرات چلنے لگے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔
Narrated Anas: I found the Prophet in the mosque along with some people. He said to me, "Did Abu Talha send you?" I said, "Yes". He said, "For a meal?" I said, "Yes." Then he said to his companions, "Get up." They set out and I was ahead of them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 414
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك، يقول: قال ابو طلحة: لام سليم لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء، قالت: نعم، فاخرجت اقراصا من شعير، ثم اخرجت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت يدي ولاثتني ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اارسلك ابو طلحة، فقلت: نعم، قال: بطعام، فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لمن معه قوموا فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فاخبرته، فقال ابو طلحة: يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة معه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هلمي يا ام سليم ما عندك فاتت بذلك الخبز فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت وعصرت ام سليم عكة فادمته، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيه ما شاء الله ان يقول، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون او ثمانون رجلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہوا۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا، کچھ کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو، آپ تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے، ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں (ہم فکر کیوں کریں؟) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا، اور اس طرح سالن ہو گیا، آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو، انہوں نے ایسا ہی کیا، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا، جب یہ لوگ باہر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I have noticed feebleness in the voice of Allah's Apostle which I think, is caused by hunger. Have you got any food?" She said, "Yes." She brought out some loaves of barley and took out a veil belonging to her, and wrapped the bread in part of it and put it under my arm and wrapped part of the veil round me and sent me to Allah's Apostle. I went carrying it and found Allah's Apostle in the Mosque sitting with some people. When I stood there, Allah's Apostle asked, "Has Abu Talha sent you?" I said, "Yes". He asked, "With some food? I said, "Yes" Allah's Apostle then said to the men around him, "Get up!" He set out (accompanied by them) and I went ahead of them till I reached Abu Talha and told him (of the Prophet's visit). Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle is coming with the people and we have no food to feed them." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out to receive Allah's Apostle. Allah's Apostle came along with Abu Talha. Allah's Apostle said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." She brought the bread which Allah's Apostle ordered to be broken into pieces. Um Sulaim poured on them some butter from an oilskin. Then Allah's Apostle recited what Allah wished him to recite, and then said, "Let ten persons come (to share the meal)." Ten persons were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, "Let another ten do the same." They were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, '"'Let another ten persons (do the same.)" They were admitted, ate their fill and went out. Then he said, "Let another ten persons come." In short, all of them ate their fill, and they were seventy or eighty men.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 778
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك، يقول: قال ابو طلحة لام سليم:" لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع، فهل عندك من شيء؟ فاخرجت اقراصا من شعير، ثم اخرجت خمارا لها، فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت ثوبي وردتني ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس، فقمت عليهم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ارسلك ابو طلحة؟ فقلت: نعم، قال: بطعام؟ قال: فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه: قوموا، فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة، فقال ابو طلحة: يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم، قال: فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل ابو طلحة ورسول الله صلى الله عليه وسلم حتى دخلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هلمي يا ام سليم، ما عندك؟ فاتت بذلك الخبز، فامر به، ففت وعصرت ام سليم عكة لها، فادمته، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شاء الله ان يقول، ثم قال: ائذن لعشرة، فاذن لهم، فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة، فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا، ثم خرجوا، ثم قال: ائذن لعشرة، فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا، ثم خرجوا ثم اذن لعشرة، فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم ثمانون رجلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ:" لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: قُومُوا، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو طَلْحَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَكِ؟ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ، فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا، فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ أَذِنَ لِعَشَرَةٍ، فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں ضعف و نقاہت کو محسوس کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقہ سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے (یعنی انس رضی اللہ عنہ کے) کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور ایک حصہ مجھے چادر کی طرح اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ بیان کیا کہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ صحابہ تھے۔ میں ان سب حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے انس! تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہو گا۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کھانے کے ساتھ؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ روانہ ہوئے۔ میں سب کے آگے آگے چلتا رہا۔ جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچا تو انہوں نے کہا: ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا سامان نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا اس پر بولیں کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (استقبال کے لیے) نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ یہاں لاؤ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا روٹی لائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا چورا کر لیا گیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے اپنے گھی کے ڈبہ میں سے گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنا لیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا کرانی چاہی، اس کے بعد فرمایا کہ ان دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ چنانچہ دس صحابہ کو بلایا۔ سب نے کھایا اور شکم سیر ہو کر باہر چلے گئے۔ پھر فرمایا کہ دس کو اور بلا لو، انہیں بلایا گیا اور سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دس صحابہ کو اور بلا لو، پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اور ان لوگوں نے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا اور باہر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اس طرح تمام صحابہ نے پیٹ بھر کر کھایا، اس وقت اسی (80) صحابہ کی جماعت وہاں موجود تھی۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I have heard the voice of Allah's Apostle which was feeble, and I think that he is hungry. Have you got something (to eat)?" She took out some loaves of barley bread, then took her face-covering sheet and wrapped the bread in part of it, and pushed it under my garment and turned the rest of it around my body and sent me to Allah's Apostle . I went with that, and found Allah's Apostle in the mosque with some people. I stood up near them, and Allah's Apostle asked me, "Have you been sent by Abu Talha?" I said, "Yes." He asked, "With some food (for us)?" I said, "Yes." Then Allah's Apostle said to all those who were with him, "Get up!" He set out (and all the people accompanied him) and I proceeded ahead of them till I came to Abu Talha. Abu Talha then said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle has arrived along with the people, and we do not have food enough to feed them all." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out till he met Allah's Apostle. Then Abu Talha and Allah's Apostle came and entered the house. Allah's Apostle said, "Um Sulaim ! Bring whatever you have." She brought that very bread. The Prophet ordered that it be crushed into small pieces, and Um Sulaim pressed a skin of butter on it. Then Allah's Apostle said whatever Allah wished him to say (to bless the food) and then added, "Admit ten (men)." So they were admitted, ate their fill and went out. The Prophet then said, "Admit ten (more)." They were admitted, ate their full, and went out. He then again said, "Admit ten more!" They were admitted, ate their fill, and went out. He admitted ten more, and so all those people ate their fill, and they were eighty men.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 293
(مرفوع) حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا حماد بن زيد، عن الجعد ابي عثمان، عن انس. ح وعن هشام، عن محمد، عن انس، وعن سنان ابي ربيعة، عن انس،" ان ام سليم امه عمدت إلى مد من شعير جشته وجعلت منه خطيفة وعصرت عكة عندها، ثم بعثتني إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاتيته وهو في اصحابه فدعوته، قال: ومن معي، فجئت، فقلت: إنه يقول ومن معي، فخرج إليه ابو طلحة، قال: يا رسول الله، إنما هو شيء صنعته ام سليم فدخل فجيء به، وقال: ادخل علي عشرة، فدخلوا فاكلوا حتى شبعوا، ثم قال: ادخل علي عشرة، فدخلوا فاكلوا حتى شبعوا، ثم قال: ادخل علي عشرة، حتى عد اربعين، ثم اكل النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قام فجعلت انظر هل نقص منها شيء".(مرفوع) حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَنَسٍ. ح وَعَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَعَنْ سِنَانٍ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ أُمَّهُ عَمَدَتْ إِلَى مُدٍّ مِنْ شَعِيرٍ جَشَّتْهُ وَجَعَلَتْ مِنْهُ خَطِيفَةً وَعَصَرَتْ عُكَّةً عِنْدَهَا، ثُمَّ بَعَثَتْنِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي أَصْحَابِهِ فَدَعَوْتُهُ، قَالَ: وَمَنْ مَعِي، فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يَقُولُ وَمَنْ مَعِي، فَخَرَجَ إِلَيْهِ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ صَنَعَتْهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَدَخَلَ فَجِيءَ بِهِ، وَقَالَ: أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً، فَدَخَلُوا فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ قَالَ: أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً، فَدَخَلُوا فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ قَالَ: أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً، حَتَّى عَدَّ أَرْبَعِينَ، ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ هَلْ نَقَصَ مِنْهَا شَيْءٌ".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے جعد ابوعثمان نے ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور (اس کی روایت حماد نے) ہشام سے بھی کی، ان سے محمد نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور سنان ابوربیعہ سے (بھی کی) اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک مد جَو لیا اور ان سے پیس کر اس کا «خطيفة»(آٹے کو دودھ میں ملا کر پکاتے ہیں) پکایا اور ان کے پاس جو گھی کا ڈبہ تھا اس میں اس پر سے گھی نچوڑا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (بلانے کے لیے) بھیجا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا تو آپ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ کو کھانا کھانے کے لیے بلایا۔ آپ نے دریافت فرمایا اور وہ لوگ بھی جو میرے ساتھ ہیں؟ چنانچہ میں واپس آیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ جو میرے ساتھ موجود ہیں وہ بھی چلیں گے۔ اس پر ابوطلحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو ایک چیز ہے جو ام سلیم نے آپ کے لیے پکائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کھانا آپ کے پاس لایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو میرے پاس اندر بلا لو۔ چنانچہ دس صحابہ داخل ہوئے اور کھانا پیٹ بھر کر کھایا پھر فرمایا دس آدمیوں کو میرے پاس اور بلا لو۔ یہ دس بھی اندر آئے اور پیٹ بھر کر کھایا پھر فرمایا اور دس آدمیوں کو بلا لو۔ اس طرح انہوں نے چالیس آدمیوں کا شمار کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایا پھر آپ کھڑے ہوئے تو میں دیکھنے لگا کہ کھانے میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوا۔
Narrated Anas: My mother, Um Sulaim, took a Mudd of barley grain, ground it and made porridge from it, and pressed (over it), a butter skin she had with her. Then she sent me to the Prophet, and I reached him while he was sitting with his companions. I invited him, whereupon he said, "And those who are with me?' I returned and said, "He says, 'And those who are with me?" Abu Talha went out to him and said, "O Allah's Apostle! It is just a meal prepared by Um Sulaim." The Prophet entered and the food was brought to him. He said, "Let ten persons enter upon me." Those ten entered and ate their fill. Again he said, 'Let ten (more) enter upon me." Those ten entered and ate their fill. Then he said, "Let ten (more) enter upon me." He called forty persons in all Then Allah's Apostle ate and got up. I started looking (at the food) to see if it decreased or not.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 361
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك، قال: قال ابو طلحة لام سليم: لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع، فهل عندك من شيء؟ فقالت: نعم، فاخرجت اقراصا من شعير، ثم اخذت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهبت فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس، فقمت عليهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارسلك ابو طلحة؟"، فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه:" قوموا"، فانطلقوا وانطلقت بين ايديهم، حتى جئت ابا طلحة فاخبرته، فقال ابو طلحة: يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم، فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة حتى دخلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هلمي يا ام سليم ما عندك؟"، فاتت بذلك الخبز، قال: فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك الخبز ففت، وعصرت ام سليم عكة لها فادمته، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان يقول، ثم قال:" ائذن لعشرة"، فاذن لهم، فاكلوا حتى شبعوا، ثم خرجوا، ثم قال:" ائذن لعشرة"، فاذن لهم، فاكلوا حتى شبعوا، ثم خرجوا، ثم قال:" ائذن لعشرة"، فاكل القوم كلهم وشبعوا، والقوم سبعون، او ثمانون رجلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبْتُ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟"، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ:" قُومُوا"، فَانْطَلَقُوا وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ؟"، فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَفُتَّ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ، أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں سن کر آ رہا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز (فاقوں کی وجہ سے) کمزور پڑ گئی ہے اور میں نے آواز سے آپ کے فاقہ کا اندازہ لگایا ہے۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں اور ایک اوڑھنی لے کر روٹی کو اس کے ایک کونے سے لپیٹ دیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ میں لے کر گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ ہیں، میں ان کے پاس جا کے کھڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے، میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کہا جو ساتھ تھے کہ اٹھو اور چلو، میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ آخر میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچا اور ان کو اطلاع دی۔ ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جا سکے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ گھر کی طرف بڑھے اور اندر گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ وہ یہی روٹیاں لائیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان روٹیوں کو چورا کر دیا گیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک (گھی کی) کپی کو نچوڑا گیا یہی سالن تھا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ اللہ نے چاہا دعا پڑھی اور فرمایا کہ دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ انہیں بلایا گیا اور اس طرح سب لوگوں نے کھایا اور خوب سیر ہو گئے، حاضرین کی تعداد ستر یا اسی آدمیوں کی تھی۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I heard the voice of Allah's Apostle rather weak, and I knew that it was because of hunger. Have you anything (to present to the Prophet)?" She said, "Yes." Then she took out a few loaves of barley bread and took a veil of hers and wrapped the bread with a part of it and sent me to Allah's Apostle. I went and found Allah's Apostle sitting in the mosque with some people. I stood up before him. Allah's Apostle said to me, "Has Abu Talha sent you?" I said, ' Yes. Then Allah's Apostle said to those who were with him. "Get up and proceed." I went ahead of them (as their forerunner) and came to Abu Talha and informed him about it. Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle has come and we have no food to feed them." Um Sulaim said, "Allah and His Apostle know best." So Abu Talha went out (to receive them) till he met Allah's Apostle. Allah's Apostle came in company with Abu Talha and they entered the house. Allah's Apostle said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." So she brought that (barley) bread and Allah's Apostle ordered that bread to be broken into small pieces, and then Um Sulaim poured over it some butter from a leather butter container, and then Allah's Apostle said what Allah wanted him to say, (i.e. blessing the food). Allah's Apostle then said, "Admit ten men." Abu Talha admitted them and they ate to their fill and went out. He again said, "Admit ten men." He admitted them, and in this way all the people ate to their fill, and they were seventy or eighty men."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 679