صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
6. بَابُ مَنْ أَكَلَ حَتَّى شَبِعَ:
باب: پیٹ بھر کر کھانا کھانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5381
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ:" لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: قُومُوا، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو طَلْحَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَكِ؟ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ، فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا، فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ أَذِنَ لِعَشَرَةٍ، فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ ثَمَانُونَ رَجُلًا".
ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں ضعف و نقاہت کو محسوس کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقہ سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے (یعنی انس رضی اللہ عنہ کے) کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور ایک حصہ مجھے چادر کی طرح اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ بیان کیا کہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ صحابہ تھے۔ میں ان سب حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے انس! تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہو گا۔ میں نے عرض کی جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کھانے کے ساتھ؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ روانہ ہوئے۔ میں سب کے آگے آگے چلتا رہا۔ جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچا تو انہوں نے کہا: ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لائے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا سامان نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا اس پر بولیں کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (استقبال کے لیے) نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ یہاں لاؤ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا روٹی لائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا چورا کر لیا گیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے اپنے گھی کے ڈبہ میں سے گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنا لیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دعا کرانی چاہی، اس کے بعد فرمایا کہ ان دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ چنانچہ دس صحابہ کو بلایا۔ سب نے کھایا اور شکم سیر ہو کر باہر چلے گئے۔ پھر فرمایا کہ دس کو اور بلا لو، انہیں بلایا گیا اور سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دس صحابہ کو اور بلا لو، پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اور ان لوگوں نے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا اور باہر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر دس صحابہ کو بلایا گیا اس طرح تمام صحابہ نے پیٹ بھر کر کھایا، اس وقت اسی (80) صحابہ کی جماعت وہاں موجود تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5381 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5381
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سمجھ گئی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اتنے لوگوں کو ہمراہ تشریف لا رہے ہیں تو کھانے میں ضرور آپ کی دعا سے بر کت ہوگی۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے چپ سے کہا کہ یا رسول اللہ! گھر میں اتنے آدمیوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا کہ چلو اندر گھر میں چلو اللہ برکت کرے گا۔
چنانچہ یہی ہوا، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کویہاں اس لیے لائے کہ اس میں سب کا شکم سیر ہو کر کھانا مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5381
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5381
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کو ثابت کیا ہے اور یہ حدیث اپنے مقصود میں واضح ہے، اگرچہ ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو لوگ دنیا میں پیٹ بھر کے کھائیں گے وہ آخرت میں لمبی بھوک سے دوچار ہوں گے۔
“ (سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3550، 3551، و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 343)
اس سے مراد وہ پیٹ بھرنا ہے جو انسان کو سست کر دے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ کا باعث بنے اور جس سے معدے میں گرانی آ جائے۔
(فتح الباري: 654/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5381