(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا سلم بن زرير، سمعت ابا رجاء، قال: حدثنا عمران بن حصين انهم كانوا مع النبي صلى الله عليه وسلم"في مسير فادلجوا ليلتهم حتى إذا كان وجه الصبح عرسوا، فغلبتهم اعينهم حتى ارتفعت الشمس فكان اول من استيقظ من منامه ابو بكر، وكان لا يوقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم من منامه حتى يستيقظ فاستيقظ عمر فقعد ابو بكر عند راسه فجعل يكبر، ويرفع صوته حتى استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم فنزل وصلى بنا الغداة فاعتزل رجل من القوم لم يصل معنا فلما انصرف، قال: يا فلان ما يمنعك ان تصلي معنا، قال: اصابتني جنابة فامره ان يتيمم بالصعيد، ثم صلى وجعلني رسول الله صلى الله عليه وسلم في ركوب بين يديه وقد عطشنا عطشا شديدا، فبينما نحن نسير إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، فقلنا لها: اين الماء، فقالت: إنه لا ماء، فقلنا: كم بين اهلك وبين الماء، قالت: يوم وليلة، فقلنا: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وما رسول الله فلم نملكها من امرها حتى استقبلنا بها النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته بمثل الذي حدثتنا غير انها حدثته، انها مؤتمة فامر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا اربعين رجلا حتى روينا فملانا كل قربة معنا وإداوة غير، انه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء ثم، قال: هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى اتت اهلها، قالت: لقيت اسحر الناس او هو نبي كما زعموا فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة فاسلمت واسلموا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ، سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فِي مَسِيرٍ فَأَدْلَجُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ عَرَّسُوا، فَغَلَبَتْهُمْ أَعْيُنُهُمْ حَتَّى ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ لَا يُوقَظُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ فَاسْتَيْقَظَ عُمَرُ فَقَعَدَ أَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ وَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا، قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، ثُمَّ صَلَّى وَجَعَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكُوبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ لَا مَاءَ، فَقُلْنَا: كَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، فَقُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا حَتَّى اسْتَقْبَلْنَا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ بِمِثْلِ الَّذِي حَدَّثَتْنَا غَيْرَ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا مُؤْتِمَةٌ فَأَمَرَ بِمَزَادَتَيْهَا فَمَسَحَ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ غَيْرَ، أَنَّهُ لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا وَهِيَ تَكَادُ تَنِضُّ مِنَ الْمِلْءِ ثُمَّ، قَالَ: هَاتُوا مَا عِنْدَكُمْ فَجُمِعَ لَهَا مِنَ الْكِسَرِ وَالتَّمْرِ حَتَّى أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقِيتُ أَسْحَرَ النَّاسِ أَوْ هُوَ نَبِيٌّ كَمَا زَعَمُوا فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، انہوں نے ابورجاء سے سنا کہ ہم سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جاگے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپ خود ہی جاگتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی جاگ گئے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا۔ (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لو (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آخر ہم اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے، اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لیے واجب الرحم ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھر لیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے (کھانے کی چیزوں میں سے) میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دیں گئیں۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں، وہ واقعی نبی ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
Narrated `Imran bin Husain: That they were with the Prophet on a journey. They travelled the whole night, and when dawn approached, they took a rest and sleep overwhelmed them till the sun rose high in the sky. The first to get up was Abu Bakr. Allah's Apostles used not to be awakened from his sleep, but he would wake up by himself. `Umar woke up and then Abu Bakr sat by the side of the Prophet's head and started saying: Allahu-Akbar raising his voice till the Prophet woke up, (and after traveling for a while) he dismounted and led us in the morning prayer. A man amongst the people failed to join us in the prayer. When the Prophet had finished the prayer, he asked (the man), "O so-and-so! What prevented you from offering the prayer with us?" He replied, "I am Junub," Alllah's Apostle ordered him to perform Tayammam with clean earth. The man then offered the prayer. Allah's Apostle ordered me and a few others to go ahead of him. We had become very thirsty. While we were on our way (looking for water), we came across a lady (riding an animal), hanging her legs between two water-skins. We asked her, "Where can we get water?" She replied, "Oh ! There is no water." We asked, "how far is your house from the water?" She replied, "A distance of a day and a night travel." We said, "Come on to Allah's Apostle, "She asked, "What is Allah's Apostle ?" So we brought her to Allah's Apostle against her will, and she told him what she had told us before and added that she was the mother of orphans. So the Prophet ordered that her two water-skins be brought and he rubbed the mouths of the water-skins. As we were thirsty, we drank till we quenched our thirst and we were forty men. We also filled all our waterskins and other utensils with water, but we did not water the camels. The waterskin was so full that it was almost about to burst. The Prophet then said, "Bring what (foodstuff) you have." So some dates and pieces of bread were collected for the lady, and when she went to her people, she said, "I have met either the greatest magician or a prophet as the people claim." So Allah guided the people of that village through that lady. She embraced Islam and they all embraced Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 771
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثني يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عوف، قال: حدثنا ابو رجاء، عن عمران، قال:" كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم، وإنا اسرينا حتى كنا في آخر الليل، وقعنا وقعة ولا وقعة احلى عند المسافر منها، فما ايقظنا إلا حر الشمس، وكان اول من استيقظ فلان، ثم فلان، ثم فلان يسميهم ابو رجاء فنسي عوف، ثم عمر بن الخطاب الرابع، وكان النبي صلى الله عليه وسلم، إذا نام لم يوقظ حتى يكون هو يستيقظ، لانا لا ندري ما يحدث له في نومه، فلما استيقظ عمر وراى ما اصاب الناس، وكان رجلا جليدا، فكبر ورفع صوته بالتكبير، فما زال يكبر ويرفع صوته بالتكبير حتى استيقظ لصوته النبي صلى الله عليه وسلم، فلما استيقظ شكوا إليه الذي اصابهم، قال: لا ضير او لا يضير، ارتحلوا، فارتحل، فسار غير بعيد، ثم نزل فدعا بالوضوء فتوضا ونودي بالصلاة، فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم، قال: ما منعك يا فلان ان تصلي مع القوم؟ قال: اصابتني جنابة ولا ماء، قال: عليك بالصعيد فإنه يكفيك، ثم سار النبي صلى الله عليه وسلم فاشتكى إليه الناس من العطش، فنزل فدعا فلانا كان يسميه ابو رجاء نسيه عوف ودعا عليا، فقال: اذهبا فابتغيا الماء، فانطلقا، فتلقيا امراة بين مزادتين او سطيحتين من ماء على بعير لها، فقالا لها: اين الماء؟ قالت: عهدي بالماء امس هذه الساعة، ونفرنا خلوفا، قالا لها: انطلقي، إذا قالت: إلى اين؟ قالا: إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: الذي يقال له الصابئ، قالا: هو الذي تعنين، فانطلقي فجاءا بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وحدثاه الحديث، قال: فاستنزلوها عن بعيرها، ودعا النبي صلى الله عليه وسلم بإناء ففرغ فيه من افواه المزادتين او سطيحتين، واوكا افواههما واطلق العزالي ونودي في الناس اسقوا واستقوا، فسقى من شاء واستقى من شاء، وكان آخر ذاك ان اعطى الذي اصابته الجنابة إناء من ماء، قال: اذهب فافرغه عليك، وهي قائمة تنظر إلى ما يفعل بمائها، وايم الله لقد اقلع عنها، وإنه ليخيل إلينا انها اشد ملاة منها حين ابتدا فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اجمعوا لها، فجمعوا لها من بين عجوة ودقيقة وسويقة حتى جمعوا لها طعاما، فجعلوها في ثوب وحملوها على بعيرها ووضعوا الثوب بين يديها، قال لها: تعلمين ما رزئنا من مائك شيئا، ولكن الله هو الذي اسقانا، فاتت اهلها وقد احتبست عنهم، قالوا: ما حبسك يا فلانة؟ قالت: العجب، لقيني رجلان فذهبا بي إلى هذا الذي يقال له الصابئ ففعل كذا وكذا، فوالله إنه لاسحر الناس من بين هذه وهذه، وقالت بإصبعيها الوسطى والسبابة: فرفعتهما إلى السماء تعني السماء والارض او إنه لرسول الله حقا، فكان المسلمون بعد ذلك يغيرون على من حولها من المشركين ولا يصيبون الصرم الذي هي منه، فقالت يوما لقومها: ما ارى ان هؤلاء القوم يدعونكم عمدا، فهل لكم في الإسلام؟ فاطاعوها، فدخلوا في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ:" كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلَا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ، ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ رَجُلًا جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، قَالَ: لَا ضَيْرَ أَوْ لَا يَضِيرُ، ارْتَحِلُوا، فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى بِالنَّاس، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟ قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ، ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا، فَقَالَ: اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ، فَانْطَلَقَا، فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، فَقَالَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، وَنَفَرُنَا خُلُوفًا، قَالَا لَهَا: انْطَلِقِي، إِذًا قَالَتْ: إِلَى أَيْنَ؟ قَالَا: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ، قَالَا: هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، فَانْطَلِقِي فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا، وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ، وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، قَالَ: اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ، وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْمَعُوا لَهَا، فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا، قَالَ لَهَا: تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا، فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، قَالُوا: مَا حَبَسَكِ يَا فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: الْعَجَبُ، لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ، وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ: فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ تَعْنِي السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ، فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا: مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ يَدْعُونَكُمْ عَمْدًا، فَهَلْ لَكُمْ فِي الْإِسْلَامِ؟ فَأَطَاعُوهَا، فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور اللہ کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اللہ کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ «صبا» کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو «اصب» کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی «امل» کے ہیں۔
Narrated `Imran: Once we were traveling with the Prophet and we carried on traveling till the last part of the night and then we (halted at a place) and slept (deeply). There is nothing sweeter than sleep for a traveler in the last part of the night. So it was only the heat of the sun that made us to wake up and the first to wake up was so and so, then so and so and then so and so (the narrator `Auf said that Abu Raja' had told him their names but he had forgotten them) and the fourth person to wake up was `Umar bin Al- Khattab. And whenever the Prophet used to sleep, nobody would wake up him till he himself used to get up as we did not know what was happening (being revealed) to him in his sleep. So, `Umar got up and saw the condition of the people, and he was a strict man, so he said, "Allahu Akbar" and raised his voice with Takbir, and kept on saying loudly till the Prophet got up because of it. When he got up, the people informed him about what had happened to them. He said, "There is no harm (or it will not be harmful). Depart!" So they departed from that place, and after covering some distance the Prophet stopped and asked for some water to perform the ablution. So he performed the ablution and the call for the prayer was pronounced and he led the people in prayer. After he finished from the prayer, he saw a man sitting aloof who had not prayed with the people. He asked, "O so and so! What has prevented you from praying with us?" He replied, "I am Junub and there is no water. " The Prophet said, "Perform Tayammum with (clean) earth and that is sufficient for you." Then the Prophet proceeded on and the people complained to him of thirst. Thereupon he got down and called a person (the narrator `Auf added that Abu Raja' had named him but he had forgotten) and `Ali, and ordered them to go and bring water. So they went in search of water and met a woman who was sitting on her camel between two bags of water. They asked, "Where can we find water?" She replied, "I was there (at the place of water) this hour yesterday and my people are behind me." They requested her to accompany them. She asked, "Where?" They said, "To Allah's Apostle ." She said, "Do you mean the man who is called the Sabi, (with a new religion)?" They replied, "Yes, the same person. So come along." They brought her to the Prophet and narrated the whole story. He said, "Help her to dismount." The Prophet asked for a pot, then he opened the mouths of the bags and poured some water into the pot. Then he closed the big openings of the bags and opened the small ones and the people were called upon to drink and water their animals. So they all watered their animals and they (too) all quenched their thirst and also gave water to others and last of all the Prophet gave a pot full of water to the person who was Junub and told him to pour it over his body. The woman was standing and watching all that which they were doing with her water. By Allah, when her water bags were returned the looked like as if they were more full (of water) than they had been before (Miracle of Allah's Apostle) Then the Prophet ordered us to collect something for her; so dates, flour and Sawiq were collected which amounted to a good meal that was put in a piece of cloth. She was helped to ride on her camel and that cloth full of foodstuff was also placed in front of her and then the Prophet said to her, "We have not taken your water but Allah has given water to us." She returned home late. Her relatives asked her: "O so and so what has delayed you?" She said, "A strange thing! Two men met me and took me to the man who is called the Sabi' and he did such and such a thing. By Allah, he is either the greatest magician between this and this (gesturing with her index and middle fingers raising them towards the sky indicating the heaven and the earth) or he is Allah's true Apostle." Afterwards the Muslims used to attack the pagans around her abode but never touched her village. One day she said to her people, "I think that these people leave you purposely. Have you got any inclination to Islam?" They obeyed her and all of them embraced Islam. Abu `Abdullah said: The word Saba'a means "The one who has deserted his old religion and embraced a new religion." Abul 'Ailya [??] said, "The S`Abis are a sect of people of the Scripture who recite the Book of Psalms."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 340
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سيف بن ابي سليمان، قال: سمعت مجاهدا، يقول: حدثني عبد الرحمن بن ابي ليلى، انهم كانوا عند حذيفة فاستسقى، فسقاه مجوسي فلما وضع القدح في يده رماه به، وقال: لولا اني نهيته غير مرة ولا مرتين، كانه يقول: لم افعل هذا ولكني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تلبسوا الحرير ولا الديباج، ولا تشربوا في آنية الذهب والفضة، ولا تاكلوا في صحافها، فإنها لهم في الدنيا ولنا في الآخرة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ حُذَيْفَةَ فَاسْتَسْقَى، فَسَقَاهُ مَجُوسِيٌّ فَلَمَّا وَضَعَ الْقَدَحَ فِي يَدِهِ رَمَاهُ بِهِ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي نَهَيْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: لَمْ أَفْعَلْ هَذَا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ وَلَا الدِّيبَاجَ، وَلَا تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَنَا فِي الْآخِرَةِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیف بن ابی سلیمان نے، کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا کہ یہ لوگ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے۔ انہوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی نے ان کو پانی (چاندی کے پیالے میں) لا کر دیا۔ جب اس نے پیالہ ان کے ہاتھ میں دیا تو انہوں نے پیالہ کو اس پر پھینک کر مارا اور کہا اگر میں نے اسے بارہا اس سے منع نہ کیا ہوتا (کہ چاندی سونے کے برتن میں مجھے کچھ نہ دیا کرو) آگے وہ یہ فرمانا چاہتے تھے کہ تو میں اس سے یہ معاملہ نہ کرتا لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ریشم و دیبا نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتن میں کچھ پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کچھ کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں ان (کفار کے لیے) دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abi Laila: We were sitting in the company of Hudhaifa who asked for water and a Magian brought him water. But when he placed the cup in his hand, he threw it at him and said, "Had I not forbidden him to do so more than once or twice?" He wanted to say, "I would not have done so," adding, "but I heard the Prophet saying, "Do not wear silk or Dibaja, and do not drink in silver or golden vessels, and do not eat in plates of such metals, for such things are for the unbelievers in this worldly life and for us in the Hereafter."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 337
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سونے اور چاندی کے پیالہ میں نہ پیا کرو اور نہ ریشم و دیبا پہنا کرو کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے دینا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔
Narrated Hudhaifa: The Prophet said, "Do not drink in gold or silver utensils, and do not wear clothes of silk or Dibaj, for these things are for them (unbelievers) in this world and for you in the Hereafter."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 69, Number 537
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا قتادة، قال: سمعت ابا عثمان النهدي: اتانا كتاب عمر ونحن مع عتبة بن فرقد باذربيجان" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الحرير، إلا هكذا، واشار بإصبعيه اللتين تليان الإبهام"، قال: فيما علمنا انه يعني الاعلام.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ: أَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ بِأَذْرَبِيجَانَ" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْحَرِيرِ، إِلَّا هَكَذَا، وَأَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ اللَّتَيْنِ تَلِيَانِ الْإِبْهَامَ"، قَالَ: فِيمَا عَلِمْنَا أَنَّهُ يَعْنِي الْأَعْلَامَ.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا کہ میں نے ابوعثمان نہدی سے سنا کہ ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا مکتوب (خط) آیا ہم اس وقت عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ آذر بائیجان میں تھے (اس میں لکھا تھا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کے استعمال سے (مردوں کو) منع کیا ہے سوا اتنے کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے کے قریب کی اپنی دونوں انگلیوں کے اشارے سے اس کی مقدار بتائی۔ ابوعثمان نہدی نے بیان کیا کہ ہماری سمجھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس سے (کپڑے وغیرہ ریشم کے) پھول بوٹے بنانے سے تھی۔
Narrated Aba `Uthman An-Nahdi: While we were with `Utba bin Farqad at Adharbijan, there came `Umar's letter indicating that Allah's Apostle had forbidden the use of silk except this much, then he pointed with his index and middle fingers. To our knowledge, by that he meant embroidery.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 718
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا عاصم، عن ابي عثمان، قال: كتب إلينا عمر ونحن باذربيجان،" ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن لبس الحرير إلا هكذا، وصف لنا النبي صلى الله عليه وسلم إصبعيه ورفع زهير الوسطى والسبابة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيْنَا عُمَرُ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إِلَّا هَكَذَا، وَصَفَّ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ وَرَفَعَ زُهَيْرٌ الْوُسْطَى وَالسَّبابةَ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے عاصم نے بیان، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا کہ ہمیں عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا اس وقت ہم آذر بائیجان میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا تھا سوا اتنے کے اور اس کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کے اشارے سے کی تھی۔ زہیر (راوی حدیث) نے بیچ کی اور شہادت کی انگلیاں اٹھا کر بتایا۔
Narrated Abu `Uthman: While we were at Adharbijan, `Umar wrote to us: 'Allah's Apostle forbade wearing silk except this much. Then the Prophet approximated his two fingers (index and middle fingers) (to illustrate that) to us.' Zuhair (the sub-narrator) raised up his middle and index fingers.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 719
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن التيمي، عن ابي عثمان، قال: كنا مع عتبة فكتب إليه عمر رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا يلبس الحرير في الدنيا إلا لم يلبس في الآخرة منه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يُلْبَسُ الْحَرِيرُ فِي الدُّنْيَا إِلَّا لَمْ يُلْبَسْ فِي الْآخِرَةِ مِنْهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے تیمی نے بیان کیا اور ان سے ابوعثمان نے بیان کیا کہ ہم عتبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دنیا میں ریشم جو شخص بھی پہنے گا اسے آخرت میں نہیں پہنایا جائے گا۔“
Narrated Abu `Uthman: While we were with `Utba. `Umar wrote to us: The Prophet said, "There is none who wears silk in this world except that he will wear nothing of it in the Hereafter." ' Abu `Uthman pointed out with his middle and index fingers. This hadith has also been narrated by Abu `Uthman.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 720
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، قال: سمعت انس بن مالك، قال شعبة: فقلت: اعن النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال شديدا: عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" من لبس الحرير في الدنيا فلن يلبسه في الآخرة"(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ: أَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ شَدِيدًا: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا فَلَنْ يَلْبَسَهُ فِي الْآخِرَةِ"
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، شعبہ نے بیان کیا کہ اس پر میں نے پوچھا کیا یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے؟ عبدالعزیز نے بیان کیا کہ قطعاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مرد ریشمی لباس دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اسے ہرگز نہیں پہن سکے گا۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے بیان کیا کہ میں نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مرد نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔
Narrated Thabit: I heard Ibn Az-Zubair delivering a sermon, saying, "Muhammad said, 'Whoever wears silk in this world, shall not wear it in the Hereafter."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 724
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ابوذہبان خلیفہ بن کعب نے، کہا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے سنا، کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مرد نے دنیا میں ریشم پہنا وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا۔ اور ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے یزید نے کہ معاذ نے بیان کیا کہ مجھے ام عمرو بنت عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
Narrated Ibn Az-Zubair: I heard `Umar saying, "The Prophet said, 'Whoever wears silk in this world, shall not wear it in the Hereafter." This hadith is also narrated through 'Umar ibn al-Khattab.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 725
(مرفوع) حدثنا علي، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا ابي، قال: سمعت ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابن ابي ليلى، عن حذيفة رضي الله عنه، قال:" نهانا النبي صلى الله عليه وسلم ان نشرب في آنية الذهب والفضة، وان ناكل فيها، وعن لبس الحرير والديباج وان نجلس عليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْرَبَ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَأَنْ نَأْكُلَ فِيهَا، وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَأَنْ نَجْلِسَ عَلَيْهِ".
ہم سے علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن ابی نجیح سے سنا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتن میں پینے اور کھانے سے منع فرمایا تھا اور ریشم اور دیباج پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا تھا۔
Narrated Hudhaifa: The Prophet forbade us to drink out of gold and silver vessels, or eat in it, Ann also forbade the wearing of silk and Dibaj or sitting on it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 728