7. باب: اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا (جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر (زور سے) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(7) Chapter. "If anyone says Amin [during the Salat (prayer) at the end of the recitation of Surat Al-Fatiha], and the angels in heaven say the same, and the sayings of two coincide, all his past sins will be forgiven".
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، عن صفوان بن يعلى، عن ابيه رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم:" يقرا على المنبر ونادوا يا مالك سورة الزخرف آية 77، قال سفيان: في قراءة عبد الله 0 ونادوا يا مال 0".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ سورة الزخرف آية 77، قَالَ سُفْيَانُ: فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ 0 وَنَادَوْا يَا مَالِ 0".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد (یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر سورۃ الاحزاب کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے «ونادوا يا مالك» اور وہ دوزخی پکاریں گی اے مالک! (یہ داروغہ جہنم کا نام ہے) اور سفیان نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رات میں یوں ہے «ونادوا يا مال.» ۔
Narrated Yali: I heard the Prophet reciting the following Verse on the pulpit: "They will call: O Mali......' and Sufyan said that `Abdullah recited it: 'They will call: O Mali..' (43.77)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 453
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عطاء سے سنا، انہوں نے صفوان بن یعلیٰ سے خبر دی۔ انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اس طرح آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك»(اور وہ دوزخی پکاریں گے، اے مالک!)۔
Narrated Yali: That he heard the Prophet on the pulpit reciting:-- "They will cry: "O Malik!' (43.77) (Malik is the gate-keeper (angel) of the (Hell) Fire.)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 488
(مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، عن عطاء، عن صفوان بن يعلى، عن ابيه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا على المنبر: ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك سورة الزخرف آية 77، وقال قتادة: مثلا للآخرين عظة لمن بعدهم، وقال غيره: مقرنين: ضابطين، يقال فلان مقرن لفلان ضابط له والاكواب الاباريق التي لا خراطيم لها، اول العابدين: اي ما كان فانا اول الآنفين وهما لغتان رجل عابد وعبد وقرا عبد الله: وقال الرسول يا رب، ويقال اول العابدين الجاحدين من عبد يعبد، وقال قتادة: في ام الكتاب جملة الكتاب اصل الكتاب.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ سورة الزخرف آية 77، وَقَالَ قَتَادَةُ: مَثَلًا لِلْآخِرِينَ عِظَةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُقْرِنِينَ: ضَابِطِينَ، يُقَالُ فُلَانٌ مُقْرِنٌ لِفُلَانٍ ضَابِطٌ لَهُ وَالْأَكْوَابُ الْأَبَارِيقُ الَّتِي لَا خَرَاطِيمَ لَهَا، أَوَّلُ الْعَابِدِينَ: أَيْ مَا كَانَ فَأَنَا أَوَّلُ الْآنِفِينَ وَهُمَا لُغَتَانِ رَجُلٌ عَابِدٌ وَعَبِدٌ وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ، وَيُقَالُ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ الْجَاحِدِينَ مِنْ عَبِدَ يَعْبَدُ، وَقَالَ قَتَادَةُ: فِي أُمِّ الْكِتَابِ جُمْلَةِ الْكِتَابِ أَصْلِ الْكِتَابِ.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك»”اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔“ اور قتادہ نے کہا «مثلا للآخرين» یعنی پچھلوں کے لیے نصیحت۔ دوسرے نے کہا «مقرنين» کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا «مقرن» ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے (اس کو قابو میں لایا ہے)۔ «أكواب» وہ کوزے جن میں ٹونٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پئے۔ «ان کان للرحمن ولد» کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (اس صورت میں «ان نافيه» ہے) «عابدين» سے «آنفين» مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے «عار» کرتا ہوں۔ اس میں دو لغت ہیں «عابد وعبد» اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو «وقال الرسول يا رب» پڑھا ہے۔ «أول العابدين» کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں۔ اس صورت میں «عابدين» باب «عبد يعبد.» سے آئے گا اور قتادہ نے کہا «في أم الكتاب» کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ میں)۔