Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
7. بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ. وَالْمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ:
باب: اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا (جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر (زور سے) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3230
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ سورة الزخرف آية 77، قَالَ سُفْيَانُ: فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ 0 وَنَادَوْا يَا مَالِ 0".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد (یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر سورۃ الاحزاب کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے «ونادوا يا مالك‏» اور وہ دوزخی پکاریں گی اے مالک! (یہ داروغہ جہنم کا نام ہے) اور سفیان نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رات میں یوں ہے «ونادوا يا مال‏.‏» ۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3230 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3230  
حدیث حاشیہ:
پوری آیت یوں ہے ﴿وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ﴾ (الزخرف: 77)
یعنی دوزخمی داروغہ دوزخ مالک کو پکاریں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ وہ ہم کو موت دے دے وہ جواب دے گا کہ تم مرنے والے نہیں ہو، بلکہ سب ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہو گے۔
اس سے بھی فرشتوں کا وجود اور ان کا مختلف خدمات پر مامور ہونا ثابت ہوا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی قرات میں لفظ ونادوا یا مال یا مالك کا مخفف ہے۔
مطلب ہر دو کا ایک ہی ہے کہ دوزخمی دوزخ کے داروغہ مالک کو پکاریں گے۔
اس سے بھی فرشتوں کا وجود ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3230   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3230  
حدیث حاشیہ:

جسے آواز دی جائے اسے منادیٰ کہتے ہیں۔
منادیٰ کے آخری حرف کو حذف کرنا ترخیم کہلاتا ہے۔
ترخیم کے بعد منادی کے اعراب کی دوصورتیں ہیں:
اس کی ذاتی حرکت ہی کو مستقل کردیا جائے اور دوسری یہ ہے کہ آخری حرف کو مستقل قراردے کر اس پر رفع پڑھا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے لفظ مالک کو ترخیم سے پڑھا ہے۔
اب اس لفظ کو پڑھنے کی تین صورتیں ہیں:
۔
یا مالك (رفع کے ساتھ)
یا مال (زیر کے ساتھ)
۔
مامال (پیش کے ساتھ)
۔
یہ اختلاف اعراب کی حد تک ہے، معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

واضح رہے کہ مالک وہ فرشتہ ہے جو دوزخ کی جنرل نگرانی کے لیے تعینات ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بھی فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3230   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3992  
´باب:۔۔۔`
یعلیٰ بن امیہ۔ منیہ۔ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر «ونادوا يا مالك» اور پکار پکار کہیں گے اے مالک! (سورۃ الزخرف: ۷۷) پڑھتے سنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی بغیر ترخیم کے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3992]
فوائد ومسائل:
تفسیر روح المعانی (158/14) میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت ابن مسعود اور ابن وثاب اور اعمش کی قراءت میں یہ لفط ترخیم کےساتھ یا مالُ پڑھا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3992   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 508  
´منبر پر قرآن پڑھنے کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر پڑھتے سنا: «ونادوا يا مالك» ۱؎ اور وہ پکار کر کہیں گے اے مالک! [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 508]
اردو حاشہ:
1؎:
الزخرف: 77 (مالک جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کو جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تو مل جائے،
جواب ملے گا:
یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہنا ہے)

2؎:
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ جمعہ میں سورہ ق پوری پڑھا کرتے تھے،
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وعظ و نصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 508   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:805  
805-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیات تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے: «وَنَادَوْا يَا مَالِكُ» (43-الزخرف:77) اور وہ ندادیں گے: اے مالک! [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:805]
فائدہ:
مالک جنم کا نگران ہے جہنمی اس سے بار بار درخواست کریں گے کہ آپ اپنے رب سے کہیں وہ ہمیں موت دے دے۔ وہ انھیں جواب دے گا کہ تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ (الزخرف: 77)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 805   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3266  
3266. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو منبر پر یہ آیت تلاوت کرتے سنا: دوزخی آواز دیں گے: اے مالک! [صحيح بخاري، حديث نمبر:3266]
حدیث حاشیہ:
مالک جہنم کا نگران ہے جو دوزخ پر مامورہے۔
اہل جہنم اس سے بار بار درخواست کریں گے کہ آپ اپنے رب سے کہیں وہ ہمیں موت سے دوچار کردے۔
وہ انھیں جواب دے گا کہ تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔
(الزخرف: 43۔
77)

یعنی مالک فرشتہ انھیں کہے گا۔
تمھارے جرائم کی فہرت بہت لمبی اور طویل ہے لہٰذا تمھیں سزا دینے کے لیے بھی لمبی مدت درکار ہے اس لیے مر جانے کا تصور ذہن سے نکال دو۔
تمھیں زندہ رکھ کر ہی سزا دی جا سکتی ہے لہٰذا تمھیں یہیں رہنا ہوگا اور زندہ ہی رکھا جائے گا۔
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:
مالک فرشتہ اہل جہنم کی آہ و بکا سن کر ہزار سال تک خاموش رہے گا۔
پھر انھیں دو الفاظ سے جواب دے گا کہ تم نے یہیں رہنا ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: 160/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3266   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4819  
4819. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا: اہل جہنم پکاریں گے: اے مالک! تمہارا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ حضرت قتادہ نے کہا: وَمَثَلًا لِّلْـَٔاخِرِينَ، یعنی بعد میں آنے والوں کے لیے نصیحت۔ قتادہ کے علاوہ نے کہا: مُقْرِنِينَ کے معنی ہیں: قابو میں رکھنے والے۔ کہا جاتا ہے: فلان مقرن لفلان: وہ دوسرے پر اختیار رکھتا ہے۔ وَأَكْوَابٍ سے مراد وہ کوزے ہیں جن کی ٹونٹی نہ ہو، یعنی ان کا منہ کھلا ہو۔ قتادہ نے کہا: فِىٓ أُمِّ ٱلْكِتَـٰبِ کے معنی ہیں: جملہ کتاب اور اصل کتاب۔ أَوَّلُ ٱلْعَـٰبِدِينَ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہو سب سے پہلے میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔ عابد میں دو لغت ہیں: رجل عابد اور رجل عبد۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے وَقِيلِهِۦ يَـٰرَبِّ کو وقال الرسول يا رب پڑھا ہے۔ اور کہا جاتا ہے: أَوَّلُ ٱلْعَـٰبِدِينَ، یعنی میں سب سے پہلے انکار کرنے والا ہوں، اس صورت میں عابدین کا لفظ عبد يعبد سے آئے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4819]
حدیث حاشیہ:
1-
اہل دوزخ عذاب کی شدت میں کمی یا وقفے سے سخت مایوس ہو کر دوزخ کے مالک نامی فرشتے کو پکار کرکہیں گے۔
مالک! نہ ہمارے عذاب میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ کبھی اس کا وقفہ ہی بڑھتا ہے تو اپنے پرورد گار سے کہہ وہ ہمیں ایک ہی بار میں ڈالے اور یہ عذاب کا قصہ ہی ختم ہو۔
مالک کہے گا۔
تمھارے جرائم کی سزا کے لیے بہت طویل مدت درکار ہے، لہٰذا مرجانے کا تصور ذہن سے نکال دو۔
تمھیں زندہ رکھ کر سزا دی جا سکتی ہے۔
لہٰذا تمھیں یہیں رہنا ہو گا اور زندہ رہ کر ہی عذاب برداشت کرنا ہو گا۔

جامع ترمذی میں امام اعمش کا قول نقل ہوا ہے کہ اہل جہنم کی پکارو دعا اور مالک کے جواب دینے میں ایک ہزار سال کا وقفہ ہو گا۔
(جامع الترمذي، صفة جھنم، حدیث: 2586)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4819