صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
66. بَابُ أَبْوَالِ الإِبِلِ وَالدَّوَابِّ وَالْغَنَمِ وَمَرَابِضِهَا:
66. باب: اونٹ، بکری اور چوپایوں کا پیشاب اور ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں۔
(66) Chapter. (What is said) about the urine of camels, sheep and other animals and about their folds.
حدیث نمبر: 233
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن انس، قال:" قدم اناس من عكل او عرينة فاجتووا المدينة، فامرهم النبي صلى الله عليه وسلم بلقاح، وان يشربوا من ابوالها والبانها، فانطلقوا، فلما صحوا قتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم واستاقوا النعم، فجاء الخبر في اول النهار فبعث في آثارهم، فلما ارتفع النهار جيء بهم، فامر فقطع ايديهم وارجلهم وسمرت اعينهم والقوا في الحرة يستسقون فلا يسقون، قال ابو قلابة: فهؤلاء سرقوا وقتلوا وكفروا بعد إيمانهم وحاربوا الله ورسوله".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" قَدِمَ أُنَاسٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَانْطَلَقُوا، فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَجَاءَ الْخَبَرُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَلَمَّا ارْتَفَعَ النَّهَارُ جِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسُمِرَتْ أَعْيُنُهُمْ وَأُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَهَؤُلَاءِ سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے حماد بن زید سے، وہ ایوب سے، وہ ابوقلابہ سے، وہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qilaba: Anas said, "Some people of `Ukl or `Uraina tribe came to Medina and its climate did not suit them. So the Prophet ordered them to go to the herd of (Milch) camels and to drink their milk and urine (as a medicine). So they went as directed and after they became healthy, they killed the shepherd of the Prophet and drove away all the camels. The news reached the Prophet early in the morning and he sent (men) in their pursuit and they were captured and brought at noon. He then ordered to cut their hands and feet (and it was done), and their eyes were branded with heated pieces of iron, They were put in 'Al-Harra' and when they asked for water, no water was given to them." Abu Qilaba said, "Those people committed theft and murder, became infidels after embracing Islam and fought against Allah and His Apostle ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 234

حدیث نمبر: 1501
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثنا قتادة، عن انس رضي الله عنه،" ان ناسا من عرينة اجتووا المدينة فرخص لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ياتوا إبل الصدقة فيشربوا من البانها وابوالها، فقتلوا الراعي واستاقوا الذود، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتي بهم فقطع ايديهم وارجلهم وسمر اعينهم وتركهم بالحرة يعضون الحجارة"، تابعه ابو قلابة، وحميد، وثابت، عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ اجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ فَرَخَّصَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ وَتَرَكَهُمْ بِالْحَرَّةِ يَعَضُّونَ الْحِجَارَةَ"، تَابَعَهُ أَبُو قِلَابَةَ، وَحُمَيْدٌ، وَثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں (کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی) لیکن انہوں نے (ان اونٹوں کے) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا (جس کی شدت کی وجہ سے) وہ پتھر چبانے لگے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابوقلابہ ثابت اور حمید نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Some people from `Uraina tribe came to Medina and its climate did not suit them, so Allah's Apostle (p.b.u.h) allowed them to go to the herd of camels (given as Zakat) and they drank their milk and urine (as medicine) but they killed the shepherd and drove away all the camels. So Allah's Apostle sent (men) in their pursuit to catch them, and they were brought, and he had their hands and feet cut, and their eyes were branded with heated pieces of iron and they were left in the Harra (a stony place at Medina) biting the stones. (See Hadith No. 234, Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 577

حدیث نمبر: 3018
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا معلى بن اسد، حدثنا وهيب، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، ان رهطا من عكل ثمانية قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم، فاجتووا المدينة، فقالوا: يا رسول الله ابغنا رسلا، قال:" ما اجد لكم إلا ان تلحقوا بالذود فانطلقوا، فشربوا من ابوالها، والبانها حتى صحوا وسمنوا، وقتلوا الراعي، واستاقوا الذود، وكفروا بعد إسلامهم، فاتى الصريخ النبي صلى الله عليه وسلم فبعث الطلب فما ترجل النهار حتى اتي بهم فقطع ايديهم وارجلهم، ثم امر بمسامير فاحميت، فكحلهم بها، وطرحهم بالحرة يستسقون فما يسقون حتى ماتوا"، قال ابو قلابة: قتلوا وسرقوا وحاربوا الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، وسعوا في الارض فسادا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَهْطًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْغِنَا رِسْلًا، قَالَ:" مَا أَجِدُ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَلْحَقُوا بِالذَّوْدِ فَانْطَلَقُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا، وَأَلْبَانِهَا حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا، وَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ، فَأَتَى الصَّرِيخُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ الطَّلَبَ فَمَا تَرَجَّلَ النَّهَارُ حَتَّى أُتِيَ بِهِمْ فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، ثُمَّ أَمَرَ بِمَسَامِيرَ فَأُحْمِيَتْ، فَكَحَلَهُمْ بِهَا، وَطَرَحَهُمْ بِالْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَمَا يُسْقَوْنَ حَتَّى مَاتُوا"، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: قَتَلُوا وَسَرَقُوا وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَعَوْا فِي الْأَرْضِ فَسَادًا.
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی ‘ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے (اونٹ کے) دودھ کا انتظام کر دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے دودھ نہیں دے سکتا ‘ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جاؤ۔ ان کا دودھ اور پیشاب پیو ‘ تاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔ وہ لوگ وہاں سے چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پی کر تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا ‘ اور اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا ‘ ایک شخص نے اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے سوار دوڑائے ‘ دوپہر سے پہلے ہی وہ پکڑ کر لائے گئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ پھر آپ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں سلائی گرم کر کے پھیر دی گئی اور انہیں حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ (ایسا ہی انہوں نے اونٹوں کے چرانے والوں کے ساتھ کیا تھا ‘ جس کا بدلہ انہیں دیا گیا) ابوقلابہ نے کہا کہ انہوں نے قتل کیا تھا ‘ چوری کی تھی ‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کی تھی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: A group of eight men from the tribe of 'Ukil came to the Prophet and then they found the climate of Medina unsuitable for them. So, they said, "O Allah's Apostle! Provide us with some milk." Allah's Apostle said, "I recommend that you should join the herd of camels." So they went and drank the urine and the milk of the camels (as a medicine) till they became healthy and fat. Then they killed the shepherd and drove away the camels, and they became unbelievers after whey were Muslims. When the Prophet was informed by a shouter for help, he sent some men in their pursuit, and before the sun rose high, they were brought, and he had their hands and feet cut off. Then he ordered for nails which were heated and passed over their eyes, and whey were left in the Harra (i.e. rocky land in Medina). They asked for water, and nobody provided them with water till they died (Abu Qilaba, a sub-narrator said, "They committed murder and theft and fought against Allah and His Apostle, and spread evil in the land.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 261

حدیث نمبر: 4192
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الاعلى بن حماد , حدثنا يزيد بن زريع , حدثنا سعيد , عن قتادة , ان انسا رضي الله عنه , حدثهم:" ان ناسا من عكل , وعرينة قدموا المدينة على النبي صلى الله عليه وسلم وتكلموا بالإسلام , فقالوا: يا نبي الله إنا كنا اهل ضرع ولم نكن اهل ريف , واستوخموا المدينة فامر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وراع , وامرهم ان يخرجوا فيه فيشربوا من البانها وابوالها , فانطلقوا حتى إذا كانوا ناحية الحرة كفروا بعد إسلامهم , وقتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم واستاقوا الذود , فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم , فبعث الطلب في آثارهم فامر بهم , فسمروا اعينهم وقطعوا ايديهم , وتركوا في ناحية الحرة حتى ماتوا على حالهم" , قال قتادة: بلغنا ان النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك:" كان يحث على الصدقة , وينهى عن المثلة" , وقال شعبة , وابان , وحماد: عن قتادة , من عرينة , وقال يحيى بن ابي كثير , وايوب: عن ابي قلابة ,عن انس: قدم نفر من عكل.(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , حَدَّثَهُمْ:" أَنَّ نَاسًا مِنْ عُكْلٍ , وَعُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ , فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ ضَرْعٍ وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ , وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ , وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا , فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا نَاحِيَةَ الْحَرَّةِ كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ , وَقَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ , فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ , فَسَمَرُوا أَعْيُنَهُمْ وَقَطَعُوا أَيْدِيَهُمْ , وَتُرِكُوا فِي نَاحِيَةِ الْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا عَلَى حَالِهِمْ" , قَالَ قَتَادَةُ: بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ:" كَانَ يَحُثُّ عَلَى الصَّدَقَةِ , وَيَنْهَى عَنِ الْمُثْلَةِ" , وَقَالَ شُعْبَةُ , وَأَبَانُ , وَحَمَّادٌ: عَنْ قَتَادَةَ , مِنْ عُرَيْنَةَ , وَقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , وَأَيُّوبُ: عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ,عَنْ أَنَسٍ: قَدِمَ نَفَرٌ مِنْ عُكْلٍ.
مجھ سے عبدالاعلی بن حماد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سعید نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبائل عکل و عرینہ کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آئے اور اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے ‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے ‘ (اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے) اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا ناموافق آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور فرمایا کہ انہیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (تو تمہیں صحت حاصل ہو جائے گی) وہ لوگ (چراگاہ کی طرف) گئے۔ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے۔ اس کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ پکڑ کر مدینہ لائے گئے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد صحابہ کو صدقہ کا حکم دیا اور مثلہ (مقتول کی لاش بگاڑنا یا ایذا دے کر اسے قتل کرنا) سے منع فرمایا اور شعبہ ‘ ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ (یہ لوگ) عرینہ کے قبیلے کے تھے (عکل کا نام نہیں لیا) اور یحییٰ بن ابی کثیر اور ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Some people of the tribe of `Ukl and `Uraina arrived at Medina to meet the Prophet and embraced Islam and said, "O Allah's Prophet! We are the owners of milch livestock (i.e. bedouins) and not farmers (i.e. countrymen)." They found the climate of Medina unsuitable for them. So Allah's Apostle ordered that they should be provided with some milch camels and a shepherd and ordered them to go out of Medina and to drink the camels' milk and urine (as medicine) So they set out and when they reached Al-Harra, they reverted to Heathenism after embracing Islam, and killed the shepherd of the Prophet and drove away the camels. When this news reached the Prophet, he sent some people in pursuit of them. (So they were caught and brought back to the Prophet ). The Prophet gave his orders in their concern. So their eyes were branded with pieces of iron and their hands and legs were cut off and they were left away in Harra till they died in that state of theirs. (See Hadith 234 Vol 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 505

حدیث نمبر: 4193
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن عبد الرحيم، حدثنا حفص بن عمر ابو عمر الحوضي، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب، والحجاج الصواف , قال:حدثني ابو رجاء مولى ابي قلابة، وكان معه بالشام، ان عمر بن عبد العزيز استشار الناس يوما، قال:" ما تقولون في هذه القسامة؟"، فقالوا: حق قضى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقضت بها الخلفاء قبلك، قال: وابو قلابة خلف سريره، فقال عنبسة بن سعيد: فاين حديث انس في العرنيين؟، قال ابو قلابة: إياي، حدثه انس بن مالك، قال: عبد العزيز بن صهيب، عن انس، من عرينة، وقال ابو قلابة: عن انس، من عكل ذكر القصة.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَالْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ , قَالَ:حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، وَكَانَ مَعَهُ بِالشَّأْمِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ اسْتَشَارَ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ:" مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الْقَسَامَةِ؟"، فَقَالُوا: حَقٌّ قَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَضَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ قَبْلَكَ، قَالَ: وَأَبُو قِلَابَةَ خَلْفَ سَرِيرِهِ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ: فَأَيْنَ حَدِيثُ أَنَسٍ فِي الْعُرَنِيِّينَ؟، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: إِيَّايَ، حَدَّثَهُ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، مِنْ عُرَيْنَةَ، وَقَالَ أَبُو قِلَابَةَ: عَنْ أَنَسٍ، مِنْ عُكْلٍ ذَكَرَ الْقِصَّةَ.
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعمر حفص بن عمر الحوضی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب اور حجاج صواف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوقلابہ کے مولیٰ ابورجاء نے بیان کیا ‘ وہ ابوقلابہ کے ساتھ شام میں تھے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن لوگوں سے مشورہ کیا کہ اس قسامہ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حق ہے۔ اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر خلفاء راشدین آپ سے پہلے کرتے رہے ہیں۔ ابورجاء نے بیان کیا کہ اس وقت ابوقلابہ ‘ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تخت کے پیچھے تھے۔ اتنے میں عنبسہ بن سعید نے کہا کہ پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہاں گئی؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ نے خود مجھ سے یہ بیان کیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے (اپنی روایت میں) انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صرف عرینہ کا نام لیا اور ابوقلابہ نے اپنی روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صرف عکل کا نام لیا پھر یہی قصہ بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Raja: The freed slave of Abu Qilaba, who was with Abu Qilaba in Sham: `Umar bin `Abdul `Aziz consulted the people saying, "What do you think of Qasama." They said, "'It is a right (judgment) which Allah's Apostle and the Caliphs before you acted on." Abu Qilaba was behind `Umar's bed. 'Anbasa bin Sa`id said, But what about the narration concerning the people of `Uraina?" Abu Qilaba said, "Anas bin Malik narrated it to me," and then narrated the whole story.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 506

حدیث نمبر: 4610
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، حدثنا ابن عون، قال: حدثني سلمان ابو رجاء مولى ابي قلابة، عن ابي قلابة: انه كان جالسا خلف عمر بن عبد العزيز، فذكروا، وذكروا، فقالوا: وقالوا: قد اقادت بها الخلفاء فالتفت إلى ابي قلابة وهو خلف ظهره، فقال: ما تقول يا عبد الله بن زيد؟ او قال: ما تقول يا ابا قلابة؟ قلت: ما علمت نفسا حل قتلها في الإسلام إلا رجل زنى بعد إحصان، او قتل نفسا بغير نفس، او حارب الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، فقال عنبسة: حدثنا انس بكذا، وكذا، قلت: إياي حدث انس، قال: قدم قوم على النبي صلى الله عليه وسلم فكلموه، فقالوا: قد استوخمنا هذه الارض، فقال:" هذه نعم لنا تخرج فاخرجوا فيها فاشربوا من البانها، وابوالها"، فخرجوا فيها فشربوا من ابوالها، والبانها، واستصحوا ومالوا على الراعي، فقتلوه، واطردوا النعم، فما يستبطا من هؤلاء، قتلوا النفس، وحاربوا الله ورسوله، وخوفوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: سبحان الله، فقلت: تتهمني، قال: حدثنا بهذا انس، قال: وقال:" يا اهل كذا، إنكم لن تزالوا بخير ما ابقي هذا فيكم، او مثل هذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ: أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَذَكَرُوا، وَذَكَرُوا، فَقَالُوا: وَقَالُوا: قَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ وَهْوَ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ؟ أَوْ قَالَ: مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ؟ قُلْتُ: مَا عَلِمْتُ نَفْسًا حَلَّ قَتْلُهَا فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ بِكَذَا، وَكَذَا، قُلْتُ: إِيَّايَ حَدَّثَ أَنَسٌ، قَالَ: قَدِمَ قَوْمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمُوهُ، فَقَالُوا: قَدِ اسْتَوْخَمْنَا هَذِهِ الْأَرْضَ، فَقَالَ:" هَذِهِ نَعَمٌ لَنَا تَخْرُجُ فَاخْرُجُوا فِيهَا فَاشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا، وَأَبْوَالِهَا"، فَخَرَجُوا فِيهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا، وَأَلْبَانِهَا، وَاسْتَصَحُّوا وَمَالُوا عَلَى الرَّاعِي، فَقَتَلُوهُ، وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ، فَمَا يُسْتَبْطَأُ مِنْ هَؤُلَاءِ، قَتَلُوا النَّفْسَ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَخَوَّفُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: تَتَّهِمُنِي، قَالَ: حَدَّثَنَا بِهَذَا أَنَسٌ، قَالَ: وَقَالَ:" يَا أَهْلَ كَذَا، إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا أُبْقِيَ هَذَا فِيكُمْ، أَوْ مِثْلُ هَذَا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلمان ابورجاء، ابوقلابہ کے غلام نے بیان کیا اور ان سے ابوقلابہ نے کہ وہ (امیرالمؤمنین) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے (مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا) لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا: عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا (پھر) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو (مرتد ہو گیا ہو)۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو (کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا) چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے) کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ (نہیں) یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qilaba: That he was sitting behind `Umar bin `Abdul `Aziz and the people mentioned and mentioned (about at-Qasama) and they said (various things), and said that the Caliphs had permitted it. `Umar bin `Abdul `Aziz turned towards Abu Qilaba who was behind him and said. "What do you say, O `Abdullah bin Zaid?" or said, "What do you say, O Abu Qilaba?" Abu Qilaba said, "I do not know that killing a person is lawful in Islam except in three cases: a married person committing illegal sexual intercourse, one who has murdered somebody unlawfully, or one who wages war against Allah and His Apostle." 'Anbasa said, "Anas narrated to us such-and-such." Abu Qilaba said, "Anas narrated to me in this concern, saying, some people came to the Prophet and they spoke to him saying, 'The climate of this land does not suit us.' The Prophet said, 'These are camels belonging to us, and they are to be taken out to the pasture. So take them out and drink of their milk and urine.' So they took them and set out and drank of their urine and milk, and having recovered, they attacked the shepherd, killed him and drove away the camels.' Why should there be any delay in punishing them as they murdered (a person) and waged war against Allah and His Apostle and frightened Allah's Messenger ?" Anbasa said, "I testify the uniqueness of Allah!" Abu Qilaba said, "Do you suspect me?" 'Anbasa said, "No, Anas narrated that (Hadith) to us." Then 'Anbasa added, "O the people of such-and-such (country), you will remain in good state as long as Allah keeps this (man) and the like of this (man) amongst you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 134

حدیث نمبر: 5685
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا سلام بن مسكين، حدثنا ثابت، عن انس: ان ناسا كان بهم سقم، قالوا:" يا رسول الله آونا واطعمنا فلما صحوا، قالوا: إن المدينة وخمة، فانزلهم الحرة في ذود له، فقال: اشربوا البانها، فلما صحوا قتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم، واستاقوا ذوده، فبعث في آثارهم فقطع ايديهم وارجلهم وسمر اعينهم، فرايت الرجل منهم يكدم الارض بلسانه حتى يموت، قال سلام: فبلغني ان الحجاج، قال لانس: حدثني باشد عقوبة عاقبه النبي صلى الله عليه وسلم، فحدثه بهذا فبلغ الحسن، فقال: وددت انه لم يحدثه بهذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ نَاسًا كَانَ بِهِمْ سَقَمٌ، قَالُوا:" يَا رَسُولَ اللَّهِ آوِنَا وَأَطْعِمْنَا فَلَمَّا صَحُّوا، قَالُوا: إِنَّ الْمَدِينَةَ وَخِمَةٌ، فَأَنْزَلَهُمُ الْحَرَّةَ فِي ذَوْدٍ لَهُ، فَقَالَ: اشْرَبُوا أَلْبَانَهَا، فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَاقُوا ذَوْدَهُ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ، فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ مِنْهُمْ يَكْدِمُ الْأَرْضَ بِلِسَانِهِ حَتَّى يَمُوتَ، قَالَ سَلَّامٌ: فَبَلَغَنِي أَنَّ الْحَجَّاجَ، قَالَ لِأَنَسٍ: حَدِّثْنِي بِأَشَدِّ عُقُوبَةٍ عَاقَبَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثَهُ بِهَذَا فَبَلَغَ الْحَسَنَ، فَقَالَ: وَدِدْتُ أَنَّهُ لَمْ يُحَدِّثْهُ بِهَذَا".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سلام بن مسکین ابوالروح بصریٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت نے بیان کیا ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ کچھ لوگوں کو بیماری تھی، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں قیام کی جگہ عنایت فرما دیں اور ہمارے کھانے کا انتظام کر دیں پھر جب وہ لوگ تندرست ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ مدینہ کی آب و ہوا خراب ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کا انتظام کر دیا اور فرمایا کہ ان کا دودھ پیو جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے اور وہ پکڑے گئے (جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ویسا ہی کیا ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی۔ میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ زبان سے زمین چاٹتا تھا اور اسی حالت میں وہ مر گیا۔ سلام نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ حجاج نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا تم مجھ سے وہ سب سے سخت سزا بیان کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دی ہو تو انہوں نے یہی واقعہ بیان کیا جب امام حسن بصری تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کاش وہ یہ حدیث حجاج سے نہ بیان کرتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Some people were sick and they said, "O Allah's Apostle! Give us shelter and food. So when they became healthy they said, "The weather of Medina is not suitable for us." So he sent them to Al-Harra with some she-camels of his and said, "Drink of their milk." But when they became healthy, they killed the shepherd of the Prophet and drove away his camels. The Prophet sent some people in their pursuit. Then he got their hands and feet cut and their eyes were branded with heated pieces of iron. I saw one of them licking the earth with his tongue till he died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 589

حدیث نمبر: 5686
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا همام، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه" ان ناسا اجتووا في المدينة فامرهم النبي صلى الله عليه وسلم ان يلحقوا براعيه يعني الإبل فيشربوا من البانها وابوالها، فلحقوا براعيه فشربوا من البانها وابوالها حتى صلحت ابدانهم، فقتلوا الراعي، وساقوا الإبل، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث في طلبهم، فجيء بهم فقطع ايديهم وارجلهم وسمر اعينهم"، قال قتادة: فحدثني محمد بن سيرين، ان ذلك كان قبل ان تنزل الحدود.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنَّ نَاسًا اجْتَوَوْا فِي الْمَدِينَةِ فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ يَعْنِي الْإِبِلَ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حَتَّى صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَسَاقُوا الْإِبِلَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي طَلَبِهِمْ، فَجِيءَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ"، قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، أَنَّ ذَلِكَ كَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چرواہے کے ہاں چلے جائیں یعنی اونٹوں میں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں لایا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی (جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا)۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: The climate of Medina did not suit some people, so the Prophet ordered them to follow his shepherd, i.e. his camels, and drink their milk and urine (as a medicine). So they followed the shepherd that is the camels and drank their milk and urine till their bodies became healthy. Then they killed the shepherd and drove away the camels. When the news reached the Prophet he sent some people in their pursuit. When they were brought, he cut their hands and feet and their eyes were branded with heated pieces of iron.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 590

حدیث نمبر: 5727
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن حماد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، حدثنا قتادة، ان انس بن مالك حدثهم،" ان ناسا او رجالا من عكل وعرينة قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وتكلموا بالإسلام، وقالوا: يا نبي الله إنا كنا اهل ضرع ولم نكن اهل ريف، واستوخموا المدينة فامر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وبراع، وامرهم ان يخرجوا فيه فيشربوا من البانها، وابوالها، فانطلقوا حتى كانوا ناحية الحرة، كفروا بعد إسلامهم وقتلوا راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم، واستاقوا الذود، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم: فبعث الطلب في آثارهم، وامر بهم، فسمروا اعينهم، وقطعوا ايديهم، وتركوا في ناحية الحرة حتى ماتوا على حالهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ،" أَنَّ نَاسًا أَوْ رِجَالًا مِنْ عُكْلٍ وعُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ، وَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ ضَرْعٍ وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ، وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَبِرَاعٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا، وَأَبْوَالِهَا، فَانْطَلَقُوا حَتَّى كَانُوا نَاحِيَةَ الْحَرَّةِ، كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ، وَأَمَرَ بِهِمْ، فَسَمَرُوا أَعْيُنَهُمْ، وَقَطَعُوا أَيْدِيَهُمْ، وَتُرِكُوا فِي نَاحِيَةِ الْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا عَلَى حَالِهِمْ.
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! ہم مویشی والے ہیں ہم لوگ اہل مدینہ کی طرح کاشتکار نہیں ہیں۔ مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی تھی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ باہر چلے جائیں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ وہ لوگ چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ پڑے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی دوڑائے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی، ان کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے اور حرہ کے کنارے انہیں چھوڑ دیا گیا، وہ اسی حالت میں مر گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: Some people from the tribes of `Ukl and `Uraina came to Allah's Apostle and embraced Islam and said, "O Allah's Apostle! We are owners of livestock and have never been farmers," and they found the climate of Medina unsuitable for them. So Allah's Apostle ordered that they be given some camels and a shepherd, and ordered them to go out with those camels and drink their milk and urine. So they set out, but when they reached a place called Al-Harra, they reverted to disbelief after their conversion to Islam, killed the shepherd and drove away the camels. When this news reached the Prophet he sent in their pursuit (and they were caught and brought). The Prophet ordered that their eyes be branded with heated iron bars and their hands be cut off, and they were left at Al-Harra till they died in that state.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 623

حدیث نمبر: 6802
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي، حدثني يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني ابو قلابة الجرمي، عن انس رضي الله عنه، قال:" قدم على النبي صلى الله عليه وسلم نفر من عكل، فاسلموا فاجتووا المدينة، فامرهم ان ياتوا إبل الصدقة، فيشربوا من ابوالها والبانها، ففعلوا، فصحوا، فارتدوا وقتلوا رعاتها، واستاقوا الإبل، فبعث في آثارهم، فاتي بهم فقطع ايديهم، وارجلهم وسمل اعينهم، ثم لم يحسمهم حتى ماتوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ الْجَرْمِيُّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنْ عُكْلٍ، فَأَسْلَمُوا فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ، فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا، فَارْتَدُّوا وَقَتَلُوا رُعَاتَهَا، وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ، وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ، ثُمَّ لَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ جرمی نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی (ان کے پیٹ پھول گئے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کے ریوڑ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ ملا کر پئیں۔ انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور تندرست ہو گئے لیکن اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے اور انہیں پکڑ کے لایا گیا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں (کیونکہ انہوں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا) اور ان کے زخموں پر داغ نہیں لگوایا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Some people from the tribe of `Ukl came to the Prophet and embraced Islam. The climate of Medina did not suit them, so the Prophet ordered them to go to the (herd of milch) camels of charity and to drink, their milk and urine (as a medicine). They did so, and after they had recovered from their ailment (became healthy) they turned renegades (reverted from Islam) and killed the shepherd of the camels and took the camels away. The Prophet sent (some people) in their pursuit and so they were (caught and) brought, and the Prophets ordered that their hands and legs should be cut off and that their eyes should be branded with heated pieces of iron, and that their cut hands and legs should not be cauterized, till they die.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 794

حدیث نمبر: 6803
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصلت ابو يعلى، حدثنا الوليد، حدثني الاوزاعي، عن يحيى، عن ابي قلابة، عن انس" ان النبي صلى الله عليه وسلم: قطع العرنيين، ولم يحسمهم حتى ماتوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَطَعَ الْعُرَنِيِّينَ، وَلَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا".
ہم سے ابویعلیٰ محمد بن صلت نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرینیوں کے (ہاتھ پاؤں) کٹوا دئیے لیکن ان پر داغ نہیں لگوایا، یہاں تک کہ وہ مر گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: The Prophet cut off the hands and feet of the men belonging to the tribe of `Uraina and did not cauterise (their bleeding limbs) till they died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 795

حدیث نمبر: 6804
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، عن وهيب، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن انس رضي الله عنه، قال: قدم رهط من عكل على النبي صلى الله عليه وسلم كانوا في الصفة، فاجتووا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، ابغنا رسلا، فقال:" ما اجد لكم إلا ان تلحقوا بإبل رسول الله، فاتوها فشربوا من البانها وابوالها، حتى صحوا وسمنوا، وقتلوا الراعي، واستاقوا الذود، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم الصريخ، فبعث الطلب في آثارهم، فما ترجل النهار حتى اتي بهم، فامر بمسامير فاحميت، فكحلهم وقطع ايديهم، وارجلهم وما حسمهم، ثم القوا في الحرة يستسقون، فما سقوا حتى ماتوا" قال ابو قلابة: سرقوا وقتلوا وحاربوا الله ورسوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ وُهَيْبٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُكْلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا فِي الصُّفَّةِ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْغِنَا رِسْلًا، فَقَالَ:" مَا أَجِدُ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَلْحَقُوا بِإِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ، فَأَتَوْهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا، وَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّرِيخُ، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ، فَمَا تَرَجَّلَ النَّهَارُ حَتَّى أُتِيَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِمَسَامِيرَ فَأُحْمِيَتْ، فَكَحَلَهُمْ وَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ، وَأَرْجُلَهُمْ وَمَا حَسَمَهُمْ، ثُمَّ أُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ، فَمَا سُقُوا حَتَّى مَاتُوا" قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنہ ۶ ھ میں آئے اور یہ لوگ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے دودھ کہیں سے مہیا کرا دیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو میرے پاس نہیں ہے۔ البتہ تم لوگ ہمارے اونٹوں میں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ آئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو کر موٹے تازے ہو گئے۔ پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فریادی پہنچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ انہیں پکڑ کر لایا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سلائیاں گرم کی گئیں اور ان کی آنکھوں میں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کے (زخم سے خون کو روکنے کے لیے) انہیں داغا بھی نہیں گیا۔ اس کے بعد وہ حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دئیے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ انہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: A group of people from `Ukl (tribe) came to the Prophet and they were living with the people of As- Suffa, but they became ill as the climate of Medina did not suit them, so they said, "O Allah's Apostle! Provide us with milk." The Prophet said, I see no other way for you than to use the camels of Allah's Apostle." So they went and drank the milk and urine of the camels, (as medicine) and became healthy and fat. Then they killed the shepherd and took the camels away. When a help-seeker came to Allah's Apostle, he sent some men in their pursuit, and they were captured and brought before mid day. The Prophet ordered for some iron pieces to be made red hot, and their eyes were branded with them and their hands and feet were cut off and were not cauterized. Then they were put at a place called Al- Harra, and when they asked for water to drink they were not given till they died. (Abu Qilaba said, "Those people committed theft and murder and fought against Allah and His Apostle.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 796

حدیث نمبر: 6805
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك" ان رهطا من عكل او قال عرينة ولا اعلمه إلا قال من عكل، قدموا المدينة، فامر لهم النبي صلى الله عليه وسلم بلقاح، وامرهم ان يخرجوا فيشربوا من ابوالها والبانها، فشربوا حتى إذا برئوا، قتلوا الراعي واستاقوا النعم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم غدوة، فبعث الطلب في إثرهم، فما ارتفع النهار حتى جيء بهم، فامر بهم فقطع ايديهم وارجلهم، وسمر اعينهم، فالقوا بالحرة يستسقون فلا يسقون" قال ابو قلابة: هؤلاء قوم سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ" أَنَّ رَهْطًا مِنْ عُكْلٍ أَوْ قَالَ عُرَيْنَةَ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ مِنْ عُكْلٍ، قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَشَرِبُوا حَتَّى إِذَا بَرِئُوا، قَتَلُوا الرَّاعِيَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُدْوَةً، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي إِثْرِهِمْ، فَمَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ حَتَّى جِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ، فَأُلْقُوا بِالْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ" قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: هَؤُلَاءِ قَوْمٌ سَرَقُوا وَقَتَلُوا، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند لوگ میں سمجھتا ہوں عکل کا لفظ کہا، مدینہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا انتظام کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلہ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ چنانچہ انہوں نے پیا اور جب وہ تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ وہ پکڑ کر لائے گئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی بھی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور انہیں حرہ میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: A group of people from `Ukl (or `Uraina) tribe ----but I think he said that they were from `Ukl came to Medina and (they became ill, so) the Prophet ordered them to go to the herd of (Milch) she-camels and told them to go out and drink the camels' urine and milk (as a medicine). So they went and drank it, and when they became healthy, they killed the shepherd and drove away the camels. This news reached the Prophet early in the morning, so he sent (some) men in their pursuit and they were captured and brought to the Prophet before midday. He ordered to cut off their hands and legs and their eyes to be branded with heated iron pieces and they were thrown at Al-Harra, and when they asked for water to drink, they were not given water. (Abu Qilaba said, "Those were the people who committed theft and murder and reverted to disbelief after being believers (Muslims), and fought against Allah and His Apostle").
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 797

حدیث نمبر: 6899
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ابو بشر إسماعيل بن إبراهيم الاسدي، حدثنا الحجاج بن ابي عثمان، حدثني ابو رجاء من آل ابي قلابة،حدثني ابو قلابة: ان عمر بن عبد العزيز ابرز سريره يوما للناس، ثم اذن لهم، فدخلوا، فقال: ما تقولون في القسامة؟، قال: نقول: القسامة القود بها حق، وقد اقادت بها الخلفاء، قال لي: ما تقول يا ابا قلابة؟، ونصبني للناس، فقلت يا امير المؤمنين: عندك رءوس الاجناد واشراف العرب، ارايت لو ان خمسين منهم شهدوا على رجل محصن بدمشق انه قد زنى لم يروه، اكنت ترجمه؟، قال: لا، قلت: ارايت لو ان خمسين منهم شهدوا على رجل بحمص انه سرق، اكنت تقطعه ولم يروه؟، قال: لا، قلت: فوالله" ما قتل رسول الله صلى الله عليه وسلم احدا قط إلا في إحدى ثلاث خصال: رجل قتل بجريرة نفسه فقتل، او رجل زنى بعد إحصان، او رجل حارب الله ورسوله وارتد عن الإسلام"، فقال القوم: اوليس قد حدث انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: قطع في السرق، وسمر الاعين، ثم نبذهم في الشمس، فقلت: انا احدثكم حديث انس، حدثني انس: ان نفرا من عكل ثمانية قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبايعوه على الإسلام، فاستوخموا الارض، فسقمت اجسامهم، فشكوا ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: افلا تخرجون مع راعينا في إبله فتصيبون من البانها وابوالها، قالوا: بلى، فخرجوا، فشربوا من البانها وابوالها، فصحوا، فقتلوا راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم، واطردوا النعم، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسل في آثارهم، فادركوا، فجيء بهم، فامر بهم، فقطعت ايديهم وارجلهم، وسمر اعينهم، ثم نبذهم في الشمس حتى ماتوا، قلت: واي شيء اشد مما صنع هؤلاء، ارتدوا عن الإسلام، وقتلوا، وسرقوا، فقال عنبسة بن سعيد: والله إن سمعت كاليوم قط، فقلت: اترد علي حديثي يا عنبسة، قال، لا، ولكن جئت بالحديث على وجهه، والله لا يزال هذا الجند بخير ما عاش هذا الشيخ بين اظهرهم، قلت: وقد كان في هذا سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، دخل عليه نفر من الانصار، فتحدثوا عنده، فخرج رجل منهم بين ايديهم، فقتل، فخرجوا بعده، فإذا هم بصاحبهم يتشحط في الدم، فرجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، صاحبنا كان تحدث معنا، فخرج بين ايدينا فإذا نحن به يتشحط في الدم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: بمن تظنون او من ترون قتله؟ قالوا: نرى ان اليهود قتلته، فارسل إلى اليهود فدعاهم، فقال: انتم قتلتم هذا؟ قالوا: لا، قال: اترضون نفل خمسين من اليهود ما قتلوه؟، فقالوا: ما يبالون ان يقتلونا اجمعين ثم ينتفلون، قال: افتستحقون الدية بايمان خمسين منكم؟"، قالوا: ما كنا لنحلف، فوداه من عنده، قلت: وقد كانت هذيل خلعوا خليعا لهم في الجاهلية، فطرق اهل بيت من اليمن بالبطحاء، فانتبه له رجل منهم، فحذفه بالسيف، فقتله، فجاءت هذيل، فاخذوا اليماني، فرفعوه إلى عمر بالموسم، وقالوا: قتل صاحبنا، فقال: إنهم قد خلعوه، فقال: يقسم خمسون من هذيل ما خلعوه، قال: فاقسم منهم تسعة واربعون رجلا، وقدم رجل منهم من الشام فسالوه ان يقسم، فافتدى يمينه منهم بالف درهم، فادخلوا مكانه رجلا آخر، فدفعه إلى اخي المقتول، فقرنت يده بيده، قالوا: فانطلقا والخمسون الذين اقسموا حتى إذا كانوا بنخلة اخذتهم السماء، فدخلوا في غار في الجبل، فانهجم الغار على الخمسين الذين اقسموا، فماتوا جميعا، وافلت القرينان واتبعهما حجر، فكسر رجل اخي المقتول، فعاش حولا ثم مات، قلت: وقد كان عبد الملك بن مروان اقاد رجلا بالقسامة، ثم ندم بعد ما صنع، فامر بالخمسين الذين اقسموا، فمحوا من الديوان وسيرهم إلى الشام.
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مِنْ آلِ أَبِي قِلَابَةَ،حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا، فَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ؟، قَالَ: نَقُولُ: الْقَسَامَةُ الْقَوَدُ بِهَا حَقٌّ، وَقَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ، قَالَ لِي: مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ؟، وَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ، فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: عِنْدَكَ رُءُوسُ الْأَجْنَادِ وَأَشْرَافُ الْعَرَبِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ مُحْصَنٍ بِدِمَشْقَ أَنَّهُ قَدْ زَنَى لَمْ يَرَوْهُ، أَكُنْتَ تَرْجُمُهُ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ بِحِمْصَ أَنَّهُ سَرَقَ، أَكُنْتَ تَقْطَعُهُ وَلَمْ يَرَوْهُ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَوَاللَّهِ" مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ، أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ"، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَوَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَطَعَ فِي السَّرَقِ، وَسَمَرَ الْأَعْيُنَ، ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَقُلْتُ: أَنَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَايَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ، فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَفَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، قَالُوا: بَلَى، فَخَرَجُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَصَحُّوا، فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَطْرَدُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُدْرِكُوا، فَجِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِهِمْ، فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ، ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا، قُلْتُ: وَأَيُّ شَيْءٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ، ارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، وَقَتَلُوا، وَسَرَقُوا، فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ: وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ، فَقُلْتُ: أَتَرُدُّ عَلَيَّ حَدِيثِي يَا عَنْبَسَةُ، قَالَ، لَا، وَلَكِنْ جِئْتَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ، وَاللَّهِ لَا يَزَالُ هَذَا الْجُنْدُ بِخَيْرٍ مَا عَاشَ هَذَا الشَّيْخُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ فِي هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، فَقُتِلَ، فَخَرَجُوا بَعْدَهُ، فَإِذَا هُمْ بِصَاحِبِهِمْ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَاحِبُنَا كَانَ تَحَدَّثَ مَعَنَا، فَخَرَجَ بَيْنَ أَيْدِينَا فَإِذَا نَحْنُ بِهِ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بِمَنْ تَظُنُّونَ أَوْ مَنْ تَرَوْنَ قَتَلَهُ؟ قَالُوا: نَرَى أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِ فَدَعَاهُمْ، فَقَالَ: أَنْتُمْ قَتَلْتُمْ هَذَا؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: أَتَرْضَوْنَ نَفَلَ خَمْسِينَ مِنَ الْيَهُودِ مَا قَتَلُوهُ؟، فَقَالُوا: مَا يُبَالُونَ أَنْ يَقْتُلُونَا أَجْمَعِينَ ثُمَّ يَنْتَفِلُونَ، قَالَ: أَفَتَسْتَحِقُّونَ الدِّيَةَ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ؟"، قَالُوا: مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ، فَوَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ، قُلْتُ: وَقَدْ كَانَتْ هُذَيْلٌ خَلَعُوا خَلِيعًا لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَطَرَقَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْيَمَنِ بِالْبَطْحَاءِ، فَانْتَبَهَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَحَذَفَهُ بِالسَّيْفِ، فَقَتَلَهُ، فَجَاءَتْ هُذَيْلٌ، فَأَخَذُوا الْيَمَانِيَّ، فَرَفَعُوهُ إِلَى عُمَرَ بِالْمَوْسِمِ، وَقَالُوا: قَتَلَ صَاحِبَنَا، فَقَالَ: إِنَّهُمْ قَدْ خَلَعُوهُ، فَقَالَ: يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْ هُذَيْلٍ مَا خَلَعُوهُ، قَالَ: فَأَقْسَمَ مِنْهُمْ تِسْعَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا، وَقَدِمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مِنَ الشَّأْمِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُقْسِمَ، فَافْتَدَى يَمِينَهُ مِنْهُمْ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، فَأَدْخَلُوا مَكَانَهُ رَجُلًا آخَرَ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَخِي الْمَقْتُولِ، فَقُرِنَتْ يَدُهُ بِيَدِهِ، قَالُوا: فَانْطَلَقَا وَالْخَمْسُونَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِنَخْلَةَ أَخَذَتْهُمُ السَّمَاءُ، فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي الْجَبَلِ، فَانْهَجَمَ الْغَارُ عَلَى الْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا، فَمَاتُوا جَمِيعًا، وَأَفْلَتَ الْقَرِينَانِ وَاتَّبَعَهُمَا حَجَرٌ، فَكَسَرَ رِجْلَ أَخِي الْمَقْتُولِ، فَعَاشَ حَوْلًا ثُمَّ مَاتَ، قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ أَقَادَ رَجُلًا بِالْقَسَامَةِ، ثُمَّ نَدِمَ بَعْدَ مَا صَنَعَ، فَأَمَرَ بِالْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا، فَمُحُوا مِنَ الدِّيوَانِ وَسَيَّرَهُمْ إِلَى الشَّأْمِ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم الاسدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے آل ابوقلابہ کے غلام ابورجاء نے بیان کیا اس نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن دربار عام کیا اور سب کو اجازت دی۔ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے پوچھا: قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کسی نے کہا کہ قسامہ کے ذریعہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاء نے اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا: ابوقلابہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ اور مجھے عوام کے ساتھ لا کھڑا کر دیا۔ میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! آپ کے پاس عرب کے سردار اور شریف لوگ رہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہو گی اگر ان میں سے پچاس آدمی کسی دمشقی کے شادی شدہ شخص کے بارے میں زنا کی گواہی دیں جبکہ ان لوگوں نے اس شخص کو دیکھا بھی نہ ہو کیا آپ ان کی گواہی پر اس شخص کو رجم کر دیں گے۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر انہیں (اشراف عرب) میں سے پچاس افراد حمص کے کسی شخص کے متعلق چوری کی گواہی دے دیں اس کو بغیر دیکھے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا، پس اللہ کی قسم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو تین حالتوں کے سوا قتل نہیں کرایا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی کو ظلماً قتل کیا ہو اور اس کے بدلے میں قتل کیا گیا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو۔ تیسرا وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی ہو اور اسلام سے پھر گیا ہو۔ لوگوں نے اس پر کہا، کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کے معاملہ میں ہاتھ پیر کاٹ دئیے تھے اور آنکھوں میں سلائی پھروائی تھی اور پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سناتا ہوں۔ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑ گئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب پیتے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ نکل گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو گئے۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا لے گئے۔ اس کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، پھر وہ پکڑے گئے اور لائے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا اور آخر وہ مر گئے۔ میں نے کہا کہ ان کے عمل سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے اسلام سے پھر گئے اور قتل کیا اور چوری کی۔ عنبہ بن سعید نے کہا میں نے آج جیسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کہا: عنبہ! کیا تم میری حدیث رد کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے یہ حدیث واقعہ کے مطابق بیان کر دی ہے۔ واللہ! اہل شام کے ساتھ اس وقت تک خیر و بھلائی رہے گی جب تک یہ شیخ (ابوقلابہ) ان میں موجود رہیں گے۔ میں نے کہا کہ اس قسامہ کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہے۔ انصار کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی پھر ان میں سے ایک صاحب ان کے سامنے ہی نکلے (خیبر کے ارادہ سے) اور وہاں قتل کر دئیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے صحابہ بھی گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ خون میں تڑپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی اور کہا: یا رسول اللہ! ہمارے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور اچانک وہ ہمیں (خیبر میں) خون میں تڑپتے ملے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور پوچھا کہ تمہارا کس پر شبہ ہے کہ انہوں نے ان کو قتل کیا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے ہی قتل کیا ہے پھر آپ نے یہودیوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کیا تم نے انہیں قتل کیا ہے؟ انہوں نے انکار کر دیا تو آپ نے فرمایا، کیا تم مان جاؤ گے اگر پچاس یہودی اس کی قسم لیں کہ انہوں نے مقتول کو قتل نہیں کیا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ لوگ ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم سب کو قتل کرنے کے بعد پھر قسم کھا لیں (کہ قتل انہوں نے نہیں کیا ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں اور خون بہا کے مستحق ہو جائیں۔ صحابہ نے عرض کیا: ہم بھی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس سے خون بہا دیا (ابوقلابہ نے کہا کہ) میں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اپنے ایک آدمی کو اپنے میں سے نکال دیا تھا پھر وہ شخص بطحاء میں یمن کے ایک شخص کے گھر رات کو آیا۔ اتنے میں ان میں سے کوئی شخص بیدار ہو گیا اور اس نے اس پر تلوار سے حملہ کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد ہذیل کے لوگ آئے اور انہوں نے یمنی کو (جس نے قتل کیا تھا) پکڑا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے حج کے زمانہ میں اور کہا کہ اس نے ہمارے آدمی کو قتل کر دیا ہے۔ یمنی نے کہا کہ انہوں نے اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب ہذیل کے پچاس آدمی اس کی قسم کھائیں کہ انہوں نے اسے نکالا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر ان میں سے انچاس آدمیوں نے قسم کھائی پھر انہیں کے قبیلہ کا ایک شخص شام سے آیا تو انہوں نے اس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قسم کھائے لیکن اس نے اپنی قسم کے بدلہ میں ایک ہزار درہم دے کر اپنا پیچھا قسم سے چھڑا لیا۔ ہذلیوں نے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو تیار کر لیا پھر وہ مقتول کے بھائی کے پاس گیا اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم پچاس جنہوں نے قسم کھائی تھی روانہ ہوئے۔ جب مقام نخلہ پر پہنچے تو بارش نے انہیں آیا۔ سب لوگ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اور غار ان پچاسوں کے اوپر گر پڑا۔ جنہوں نے قسم کھائی تھی اور سب کے سب مر گئے۔ البتہ دونوں ہاتھ ملانے والے بچ گئے۔ لیکن ان کے پیچھے سے ایک پتھر لڑھک کر گرا اور اس سے مقتول کے بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کے بعد وہ ایک سال اور زندہ رہا پھر مر گیا۔ میں نے کہا کہ عبدالملک بن مروان نے قسامہ پر ایک شخص سے قصاص لی تھی پھر اسے اپنے کئے ہوئے پر ندامت ہوئی اور اس نے ان پچاسوں کے متعلق جنہوں نے قسم کھائی تھی حکم دیا اور ان کے نام رجسٹر سے کاٹ دئیے گئے پھر انہوں نے شام بھیج دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Qilaba: Once `Umar bin `Abdul `Aziz sat on his throne in the courtyard of his house so that the people might gather before him. Then he admitted them and (when they came in), he said, "What do you think of Al-Qasama?" They said, "We say that it is lawful to depend on Al-Qasama in Qisas, as the previous Muslim Caliphs carried out Qisas depending on it." Then he said to me, "O Abu Qilaba! What do you say about it?" He let me appear before the people and I said, "O Chief of the Believers! You have the chiefs of the army staff and the nobles of the Arabs. If fifty of them testified that a married man had committed illegal sexual intercourse in Damascus but they had not seen him (doing so), would you stone him?" He said, "No." I said, "If fifty of them testified that a man had committed theft in Hums, would you cut off his hand though they did not see him?" He replied, "No." I said, "By Allah, Allah's Apostle never killed anyone except in one of the following three situations: (1) A person who killed somebody unjustly, was killed (in Qisas,) (2) a married person who committed illegal sexual intercourse and (3) a man who fought against Allah and His Apostle and deserted Islam and became an apostate." Then the people said, "Didn't Anas bin Malik narrate that Allah's Apostle cut off the hands of the thieves, branded their eyes and then, threw them in the sun?" I said, "I shall tell you the narration of Anas. Anas said: "Eight persons from the tribe of `Ukl came to Allah's Apostle and gave the Pledge of allegiance for Islam (became Muslim). The climate of the place (Medina) did not suit them, so they became sick and complained about that to Allah's Apostle. He said (to them ), "Won't you go out with the shepherd of our camels and drink of the camels' milk and urine (as medicine)?" They said, "Yes." So they went out and drank the camels' milk and urine, and after they became healthy, they killed the shepherd of Allah's Apostle and took away all the camels. This news reached Allah's Apostle , so he sent (men) to follow their traces and they were captured and brought (to the Prophet). He then ordered to cut their hands and feet, and their eyes were branded with heated pieces of iron, and then he threw them in the sun till they died." I said, "What can be worse than what those people did? They deserted Islam, committed murder and theft." Then 'Anbasa bin Sa`id said, "By Allah, I never heard a narration like this of today." I said, "O 'Anbasa! You deny my narration?" 'Anbasa said, "No, but you have related the narration in the way it should be related. By Allah, these people are in welfare as long as this Sheikh (Abu Qilaba) is among them." I added, "Indeed in this event there has been a tradition set by Allah's Apostle. The narrator added: Some Ansari people came to the Prophet and discussed some matters with him, a man from amongst them went out and was murdered. Those people went out after him, and behold, their companion was swimming in blood. They returned to Allah's Apostle and said to him, "O Allah's Apostle, we have found our companion who had talked with us and gone out before us, swimming in blood (killed)." Allah's Apostle went out and asked them, "Whom do you suspect or whom do you think has killed him?" They said, "We think that the Jews have killed him." The Prophet sent for the Jews and asked them, "Did you kill this (person)?" They replied, "No." He asked the Al-Ansars, "Do you agree that I let fifty Jews take an oath that they have not killed him?" They said, "It matters little for the Jews to kill us all and then take false oaths." He said, "Then would you like to receive the Diya after fifty of you have taken an oath (that the Jews have killed your man)?" They said, "We will not take the oath." Then the Prophet himself paid them the Diya (Blood-money)." The narrator added, "The tribe of Hudhail repudiated one of their men (for his evil conduct) in the Pre-lslamic period of Ignorance. Then, at a place called Al-Batha' (near Mecca), the man attacked a Yemenite family at night to steal from them, but a. man from the family noticed him and struck him with his sword and killed him. The tribe of Hudhail came and captured the Yemenite and brought him to `Umar during the Hajj season and said, "He has killed our companion." The Yemenite said, "But these people had repudiated him (i.e., their companion)." `Umar said, "Let fifty persons of Hudhail swear that they had not repudiated him." So forty-nine of them took the oath and then a person belonging to them, came from Sham and they requested him to swear similarly, but he paid one-thousand Dirhams instead of taking the oath. They called another man instead of him and the new man shook hands with the brother of the deceased. Some people said, "We and those fifty men who had taken false oaths (Al-Qasama) set out, and when they reached a place called Nakhlah, it started raining so they entered a cave in the mountain, and the cave collapsed on those fifty men who took the false oath, and all of them died except the two persons who had shaken hands with each other. They escaped death but a stone fell on the leg of the brother of the deceased and broke it, whereupon he survived for one year and then died." I further said, "`Abdul Malik bin Marwan sentenced a man to death in Qisas (equality in punishment) for murder, basing his judgment on Al-Qasama, but later on he regretted that judgment and ordered that the names of the fifty persons who had taken the oath (Al-Qasama), be erased from the register, and he exiled them in Sham."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 37


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.