حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا ابن ابي ذئب، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله يحب العطاس ويكره التثاؤب، فإذا عطس احدكم، فقال: الحمد لله، فحق على كل من سمعه ان يقول: يرحمك الله، واما التثاؤب فإذا تثاءب احدكم فليرده ما استطاع ولا يقولن: هاه هاه فإنما ذلك من الشيطان يضحك منه "، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وهذا اصح من حديث ابن عجلان، وابن ابي ذئب احفظ لحديث سعيد المقبري، واثبت من محمد بن عجلان، قال: سمعت ابا بكر العطار البصري يذكر، عن علي بن المديني، عن يحيى بن سعيد، قال: قال محمد بن عجلان: احاديث سعيد المقبري روى بعضها سعيد عن ابي هريرة، وروى بعضها عن سعيد، عن رجل، عن ابي هريرة، فاختلطت علي، فجعلتها عن سعيد، عن ابي هريرة.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ: هَاهْ هَاهْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَجْلَانَ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَأَثْبَتُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ رَوَى بَعْضَهَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى بَعْضُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اور یہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابن ابی ذئب: سعید مقبری کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے (احفظ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں، ۴- میں نے ابوبکر عطار بصریٰ سے سنا ہے وہ روایت کرتے ہیں: علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید مقبری کی احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اور بعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہو گئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون؟ تو میں نے سبھی روایتوں کو سعید کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کر دی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 11 (3289)، والأدب 125 (6223)، و 26 (6262)، صحیح مسلم/الزہد 9 (2995)، سنن ابی داود/ الأدب 97 (5028) (تحفة الأشراف: 14322)، و مسند احمد (2/265، 428، 517) وانظر ما تقدم برقم 370 (صحیح)»
الله يحب العطاس يكره التثاؤب إذا عطس أحدكم وحمد الله كان حقا على كل مسلم سمعه أن يقول له يرحمك الله التثاؤب فإنما هو من الشيطان فإذا تثاؤب أحدكم فليرده ما استطاع فإن أحدكم إذا تثاءب ضحك منه الشيطان
العطاس من الله التثاؤب من الشيطان فإذا تثاءب أحدكم فليضع يده على فيه وإذا قال آه آه فإن الشيطان يضحك من جوفه وإن الله يحب العطاس ويكره التثاؤب فإذا قال الرجل آه آه إذا تثاءب فإن الشيطان يضحك في جوفه
الله يحب العطاس يكره التثاؤب إذا عطس أحدكم فقال الحمد لله فحق على كل من سمعه أن يقول يرحمك الله التثاؤب فإذا تثاءب أحدكم فليرده ما استطاع ولا يقولن هاه هاه فإنما ذلك من الشيطان يضحك منه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5028
´جمائی لینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے، تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے رہے، اور ہاہ ہاہ نہ کہے، اس لیے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، وہ اس پر ہنستا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5028]
فوائد ومسائل: 1۔ چھینک آنا طبعیت کے ہلکے ہونے اورصحت مندی کی جبکہ جمائی کسل او ر طبعیت کے بوجھل ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ اور شریعت میں ہر بُری کیفیت کی نسبت شیطان کی طرف اور ہر خیر اور بہتری کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف کی جاتی ہے۔
2۔ جمائی کو بند کرنے کی ایک صورت یہ ہے۔ کہ انسان جمائی آنے ہی نہ دے۔ یا اگر آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے۔ اور ہاء ہاء کی آواز نہ نکالے۔ بالخصوص نماز کے دوران میں اس کا خاص خیال رکھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5028