حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 522
´بہترین گواہ کون ہے؟`
«. . . 317- وبه: عن أبيه عن عبد الله بن عمرو بن عثمان عن ابن أبى عمرة الأنصاري عن زيد بن خالد الجهني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ألا أخبركم بخير الشهداء الذى يأتي بشهادته قبل أن يسألها أن يخبر بشهادته قبل أن يسألها .“ . . .»
”. . . سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں گواہوں میں سے بہترین گواہ نہ بتا دوں؟ جو پوچھنے سے پہلے گواہی پیش کرتا ہے اور پوچھے جانے سے پہلے گواہی دے دیتا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 522]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم فواد 1719، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ اگر سچا گواہ مطالبے کے بغیر سچی گواہی دے تو یہ انتہائی بہترین اور نیک کام ہے۔
➋ اس حدیث کی سند میں روایت کرنے والے چار تابعی ہیں: عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عبد اللہ بن عمرو بن عثمان اور ابوعمرہ بن ابی عمرہ الانصاری، رحمہ اللہ اجمعین۔
➌ بعض لوگ مطالبے کے بغیر گواہی دے دیتے ہیں۔ اگر یہ گواہی سچی ہے تو نیکی کا کام ہے اور اگر جھوئی ہے تو کبیرہ گناہ ہے۔
➍ شرعی عذر کے بغیر سچی گواہی چھپانا جائز نہیں ہے۔
➎ حاضرین کومتوجہ کرنے کے لئے استفہامیہ (سوالیہ) انداز اختیار کرنا نہ صرف جائز بلک تعلیم و تدریس کے سلسلے میں مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 317