حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن زكريا بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معاذ بن جبل إلى اليمن، فقال: " اتق دعوة المظلوم فإنها ليس بينها وبين الله حجاب "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن انس، وابي هريرة، وعبد الله بن عمر، وابي سعيد، وهذا حديث حسن صحيح، وابو معبد اسمه نافذ.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: " اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَعْبَدٍ اسْمُهُ نَافِذٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو (حاکم بنا کر) یمن روانہ کرتے وقت فرمایا: ”مظلوم کی دعا سے ڈرو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ آڑے نہیں آتا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2448
´مظلوم کی بددعا سے بچنا اور ڈرتے رہنا ` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ . . . .» ”. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبد نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/بَابُ الاِتِّقَاءِ وَالْحَذَرِ مِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ: 2448]
لغوی توضیح: «اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ» مظلوم کی بددعا سے بچو، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر زیادتی نہ کرو تاکہ وہ بددعا نہ دے۔ «لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ» اللہ اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اس کی دعا فوراً قبول کرتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ مظلوم کی دعا کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ [حسن الصحيحة 596، صحيح ابوداود 1584، صحيح الادب المفرد 24] ایک اور روایت میں ہے کہ مظلوم کی دعا انگارے کی طرح آسمان کی طرف چڑھتی ہے۔ [صحيح: صحيح الترغيب 2228، صحيح الجامع الصغير 118] ایک اور فرمان نبوی کے مطابق مظلوم اگر کافر بھی ہو تو تب بھی اس کی بددعا سے بچنا چاہئیے۔ [حسن صحيح الجامع الصغير 119، سلسلة الصحيحة الباني:767]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 12
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2014
´مظلوم کی دعا کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو (حاکم بنا کر) یمن روانہ کرتے وقت فرمایا: ”مظلوم کی دعا سے ڈرو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ آڑے نہیں آتا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2014]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مفہوم یہ ہے کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے، اس لیے ظلم و تعدی سے ہمیشہ دور رہو، ورنہ مظلوم کی آہ کا شکار ہوجاؤ گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2014