سنن ترمذي
كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
68. باب مَا جَاءَ فِي دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ
باب: مظلوم کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2014
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: " اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَعْبَدٍ اسْمُهُ نَافِذٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو
(حاکم بنا کر) یمن روانہ کرتے وقت فرمایا:
”مظلوم کی دعا سے ڈرو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ آڑے نہیں آتا
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 63 (1496)، والمظالم 9 (2448)، والمغازي 60 (4347)، سنن ابی داود/ الزکاة 5 (1584)، سنن النسائی/الزکاة 46 (2523)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 1 (1783) (تحفة الأشراف: 6511)، و مسند احمد (1/233)، وسنن الدارمی/الزکاة 1 (1655) (وانظر أیضا ماتقدم عند المؤلف برقم 625) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے، اس لیے ظلم و تعدی سے ہمیشہ دور رہو، ورنہ مظلوم کی آہ کا شکار ہو جاؤ گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1412)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2014 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2014
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ مظلوم کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے،
اس لیے ظلم و تعدی سے ہمیشہ دور رہو،
ورنہ مظلوم کی آہ کا شکار ہوجاؤ گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2014
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2448
´مظلوم کی بددعا سے بچنا اور ڈرتے رہنا `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ . . . .»
”. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبد نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/بَابُ الاِتِّقَاءِ وَالْحَذَرِ مِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ: 2448]
� لغوی توضیح:
«اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ» مظلوم کی بددعا سے بچو، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر زیادتی نہ کرو تاکہ وہ بددعا نہ دے۔
«لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ» اللہ اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اس کی دعا فوراً قبول کرتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ مظلوم کی دعا کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ [حسن الصحيحة 596، صحيح ابوداود 1584، صحيح الادب المفرد 24]
ایک اور روایت میں ہے کہ مظلوم کی دعا انگارے کی طرح آسمان کی طرف چڑھتی ہے۔ [صحيح: صحيح الترغيب 2228، صحيح الجامع الصغير 118]
ایک اور فرمان نبوی کے مطابق مظلوم اگر کافر بھی ہو تو تب بھی اس کی بددعا سے بچنا چاہئیے۔ [حسن صحيح الجامع الصغير 119، سلسلة الصحيحة الباني:767]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 12
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2448
2448. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن (کاگورنر بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا: ”مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2448]
حدیث حاشیہ:
(1)
پردہ حائل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مظلوم کی بددعا بہت جلد قبول ہوتی ہے، چنانچہ امام ابن ابی شیبہ ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مظلوم اگرچہ فاجر ہو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
اپنے فسق کا وبال وہ خود بھگتے گا بہرحال اس کی دعا مسترد نہیں ہوتی۔
“ (المصنف لابن أبي شیبة: 96/10، و الصحیحة للألباني، تحت حدیث: 767) (2)
اس کا مفہوم یہ نہیں کہ ظالم فوراً اللہ کی پکڑ میں آ جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اس سے معاملہ کرتا ہے۔
کبھی فوراً سزا دے دیتا ہے اور کبھی دیر سے مؤاخذہ کرتا ہے تاکہ وہ مزید ظلم کرے، بالآخر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے۔
بہرحال ظالم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے ظلم کیا لیکن کچھ بھی سزا نہیں ملی۔
اللہ کے ہاں مہلت تو مل سکتی ہے لیکن اندھیر ممکن نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2448