حدثنا ابو رجاء، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " البركة تنزل وسط الطعام فكلوا من حافتيه ولا تاكلوا من وسطه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح إنما يعرف من حديث عطاء بن السائب وقد رواه شعبة، والثوري، عن عطاء بن السائب وفي الباب، عن ابن عمر.حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْبَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اس لیے تم لوگ اس کے کناروں سے کھاؤ، بیچ سے مت کھاؤ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور صرف عطاء بن سائب کی روایت سے معروف ہے، اسے شعبہ اور ثوری نے بھی عطاء بن سائب سے روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایا گیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ، کیونکہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا، اور دوسروں کے کام آ جائے گا، اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1805
´بیچ سے کھانے کی کراہت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اس لیے تم لوگ اس کے کناروں سے کھاؤ، بیچ سے مت کھاؤ“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1805]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایاگیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ، کیوں کہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا، اور دوسروں کے کام آجائے گا، اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1805