Note: Copy Text and to word file

سنن ترمذي
كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: کھانے کے احکام و مسائل
12. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَكْلِ مِنْ وَسَطِ الطَّعَامِ
باب: بیچ سے کھانے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1805
حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْبَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اس لیے تم لوگ اس کے کناروں سے کھاؤ، بیچ سے مت کھاؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور صرف عطاء بن سائب کی روایت سے معروف ہے، اسے شعبہ اور ثوری نے بھی عطاء بن سائب سے روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأطعمة 18 (3772)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 12 (3277)، (تحفة الأشراف: 5566)، سنن الدارمی/الأطعمة 16 (2090) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایا گیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ، کیونکہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا، اور دوسروں کے کام آ جائے گا، اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3277)

وضاحت: ۱؎: اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایا گیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ، کیونکہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا، اور دوسروں کے کام آ جائے گا، اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1805 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1805  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایاگیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ،
کیوں کہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے،
اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں،
دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا،
اور دوسروں کے کام آجائے گا،
اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1805   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:539  
539- سفیان کہتے ہیں: عطاء بن سائب ایک مرتبہ ہمارے ساتھ گفتگو کر رہے تھے، میں نے انہیں ایک جنگ کا تذکرہ کرے ہوئے سنا، جس میں وہ شریک ہوئے تھے، پھر انہوں نے گہرا سانس لیا اور رونے لگے کہ اس میں فلاں صاحب بھی تھے، فلاں صاحب بھی تھے، فلاں صاحب بھی تھے اور مقسم بھی تھے۔ تو سعید بن جبیر بولے: کی تم میں سے ہر ایک نے وہ بات سنی ہے جو کھانے کے بارے میں کہی گئی ہے، تو مقسم نے کہا: اے ابو عبداللہ! حاضرین کو وہ بات بتا دیجئے، تو سعید بن جبیر بولے: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: بے شک برکت کھانے کے درمیان م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:539]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کھانا درمیان سے نہیں کھانا چاہیے، بلکہ ہر کسی کو اپنی طرف کھانا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 539