حدثنا هناد، حدثنا ابن ابي الزناد، عن ابيه، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " تنفل سيفه ذا الفقار يوم بدر، وهو الذي راى فيه الرؤيا يوم احد "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه من حديث ابن ابي الزناد، وقد اختلف اهل العلم في النفل من الخمس، فقال مالك بن انس: لم يبلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نفل في مغازيه كلها، وقد بلغني انه نفل في بعضها، وإنما ذلك على وجه الاجتهاد من الإمام في اول المغنم وآخره، قال إسحاق ابن منصور: قلت لاحمد: إن النبي صلى الله عليه وسلم: " نفل إذا فصل بالربع بعد الخمس، وإذا قفل بالثلث بعد الخمس "، فقال: يخرج الخمس ثم ينفل مما بقي، ولا يجاوز هذا، قال ابو عيسى: وهذا الحديث على ما قال ابن المسيب: النفل من الخمس، قال إسحاق: هو كما قال.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَنَفَّلَ سَيْفَهُ ذَا الْفَقَارِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَهُوَ الَّذِي رَأَى فِيهِ الرُّؤْيَا يَوْمَ أُحُدٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي النَّفَلِ مِنَ الْخُمُسِ، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَمْ يَبْلُغْنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَّلَ فِي مَغَازِيهِ كُلِّهَا، وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّهُ نَفَّلَ فِي بَعْضِهَا، وَإِنَّمَا ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الِاجْتِهَادِ مِنَ الْإِمَامِ فِي أَوَّلِ الْمَغْنَمِ وَآخِرِهِ، قَالَ إِسْحَاقُ ابْنُ مَنْصُورٍ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَفَّلَ إِذَا فَصَلَ بِالرُّبُعِ بَعْدَ الْخُمُسِ، وَإِذَا قَفَلَ بِالثُّلُثِ بَعْدَ الْخُمُسِ "، فَقَالَ: يُخْرِجُ الْخُمُسَ ثُمَّ يُنَفِّلُ مِمَّا بَقِيَ، وَلَا يُجَاوِزُ هَذَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا الْحَدِيثُ عَلَى مَا قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: النَّفَلُ مِنَ الْخُمُسِ، قَالَ إِسْحَاق: هُوَ كَمَا قَالَ.
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن نفل میں اپنی تلوار ذوالفقار لے لی تھی، اسی کے بارے میں آپ نے احد کے دن خواب دیکھا تھا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو اس سند سے صرف ابن ابی زناد ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- خمس میں سے نفل دینے کی بابت اہل علم کا اختلاف ہے، مالک بن انس کہتے ہیں: مجھے کوئی روایت نہیں پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام غزوات میں نفل دیا ہے، آپ نے بعض غزوات میں نفل دیا ہے، لیکن یہ امام کے اجتہاد پر موقوف ہے کہ شروع میں دے، یا آخر میں دے، ۳- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی کے وقت خمس نکالنے کے بعد بطور نفل ربع دیا ہے اور واپسی پر خمس نکالنے کے بعد ثلث دیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ خمس نکالتے تھے پھر جو باقی بچتا اسی سے نفل دیتے تھے، آپ کبھی ثلث سے تجاوز نہیں کرتے تھے ۳؎، یہ حدیث مسیب کے قول کے موافق ہے کہ نفل خمس سے دیا جائے گا، اسحاق بن راہویہ نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔
وضاحت: ۲؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی تلوار ذوالفقار کو حرکت دی تو وہ درمیان سے ٹوٹ گئی پھر دوبارہ حرکت دی تو پہلے سے بہتر حالت میں آ گئی۔
۳؎: مجاہد کو مال غنیمت میں سے مقرر حصہ کے علاوہ زائد مال بھی دیا جا سکتا ہے، اور یہی «نفل» کہلاتا ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ زائد حصہ مال غنیمت میں سے ہو گا یا خمس میں سے یا خمس الخمس میں سے؟ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اصل غنیمت میں سے دیا جائے گا، اس اضافی حصہ کی مقدار کی بابت سب کا اتفاق ہے کہ سربراہ و امام یہ حصہ غنیمت کے تہائی حصہ سے زائد دینے کا مجاز نہیں۔
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے ۱؎۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔` ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔“[سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے، واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1562
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل: جو مال مقتول کے پاس ہو۔ اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔ یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔ اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ (نیل الأوطار: 305/7)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2717