حدثنا عبد الله بن ابي زياد الكوفي، وهارون بن عبد الله البزاز البغدادي، قالا: حدثنا سيار هو: ابن حاتم، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على شاب وهو في الموت، فقال: " كيف تجدك "، قال: والله يا رسول الله اني ارجو الله، وإني اخاف ذنوبي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يجتمعان في قلب عبد في مثل هذا الموطن إلا اعطاه الله ما يرجو وآمنه مما يخاف ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ هُوَ: ابْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ: " كَيْفَ تَجِدُكَ "، قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي أَرْجُو اللَّهَ، وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے اور وہ سکرات کے عالم میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے کو کیسا پا رہے ہو؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم، اللہ کے رسول! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہو جاتی ہیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا کر دیتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن اور غریب ہے، ۲- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4261
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے جو مرض الموت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو“؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت کی امید کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس بندے کے دل میں ایسے وقت میں یہ دونوں کیفیتیں جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دے گا جس کی وہ امید کرتا ہے، اور جس چیز سے ڈرتا ہے، اس سے محفوظ رکھے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4261]
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) بیمار آدمی کی عیادت کرنا اور اس خیریت دریافت کرنا مسنون ہے۔ خاص طور پر جب کہ مریض کی کیفیت ایسی ہوکہ آخری وقت قریب محسوس ہوتا ہو۔
(2) بندے کو وفات کے وقت امید اورخوف دونوں کوسامنے رکھنا چاہیے۔ تاہم امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔
(3) اگر بندے کے دل میں امید اور خوف کی کیفیت ہو تو اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے اس طرح اللہ کے غضب سے پناہ مل جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4261