فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4327
اردو حاشہ:
(1) اس باب کے تحت آنے والی روایات سے صاف ثابت ہو رہا ہے کہ ضب حلال ہے۔ اسے بلا شک وشبہ کھایا جا سکتا ہے، البتہ آپ اس سے مالوف نہیں تھے، لہٰذا آپ کو طبعاً اچھا نہیں لگتا تھا، ورنہ آپ کے سامنے کھایا گیا، اگر حرام یا مکروہ ہوتا تو آپ کھانے نہ دیتے، البتہ آخری تین روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس کے بارے میں شک تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ نسل نہ ہو۔ لیکن ایک صحیح روایت میں آپ نے فرمایا ہے کہ مسخ شدہ نسل تین دن سے زائد زندہ نہیں رہتی۔ معلوم ہوتا ہے، پہلے آپ کو شک تھا، پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتا دیا گیا کہ یہ مسخ شدہ نسل نہیں کیونکہ مسخ شدہ نسل تین دن سے زائد زندہ نہیں رہتی، اس لیے ان روایات میں ذکر کردہ شک کا ضب کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ سنن ابوداود کی ایک روایت، جس کی سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے اور شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اسے سلسلة الأحادیث الصحیحة (2390) میں لائے ہیں۔ اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ضب کھانے سے منع فرمایا۔ بلا شبہ حلت کی روایات اعلیٰ درجے کی صحیح اور صریح ہیں، اس لیے اس روایت کو اس دور پر محمول کیا جائے گا جب آپ کو اس کے بارے میں مسخ شدہ نسل ہونے کا شک تھا۔ اس بنا پر آپ ﷺ اس سے کنارہ کش رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسے کھانے کا حکم دیا نہ اس سے روکا۔ بعد ازاں جب آپ کو اس کی حلت سے آگاہ کر دیا گیا تو آپ نے صراحتاً اسے حلال قرار دیا، البتہ خود طبعاً اسے پسند نہیں فرماتے تھے، اس لیے نہیں کھایا۔ لہٰذا ممانعت اور اباحت وحلت کی روایات کے مابین تطبیق ہی بہتر ہے کہ ممانعت وکراہت کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے اول دور سے ہے جبکہ اباحت واجازت کا تعلق بعد کے دور سے ہے۔ ہاں! جو طبعاً اسے ناپسند کرتا ہو اس کے حق میں یہ کراہت تنزیہ پر محمول ہوگی۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے حوالہ مذکورہ دیکھیے۔
(2) عام مترجمین ”ضب“ کے معنی ”گوہ“ کرتے ہیں لیکن یہ قطعاً صحیح نہیں ”ضب“ سانڈا ہی ہے، گوہ یا سوسمار نہیں۔ اگرچہ ان کی شکل وصورت ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔ ان میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ گوہ، مینڈک اور چھپکلیاں وغیرہ کھاتی ہے جبکہ سانڈا گھاس کھاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ گوہ جسامت میں سانڈے سے بڑی ہوتی ہے۔ حدیث میں سانڈے کا گوشت کھانے کا ذکر ہے لیکن گوہ کا کوئی ذکر نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4327