اخبرنا عبد الملك بن شعيب بن الليث، قال: اخبرني ابي، عن جدي، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني ابو عبيدة بن عبد الله بن زمعة، ان امه زينب بنت ابي سلمة اخبرته , ان امها ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، كانت تقول:" ابى سائر ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يدخل عليهن بتلك الرضاعة، وقلن لعائشة: والله ما نرى هذه إلا رخصة رخصها رسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة لسالم، فلا يدخل علينا احد بهذه الرضاعة ولا يرانا". أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، أَنَّ أُمَّهُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ تَقُولُ:" أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخَلَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ مَا نُرَى هَذِهِ إِلَّا رُخْصَةً رَخَّصَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً لِسَالِمٍ، فَلَا يَدْخُلْ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ وَلَا يَرَانَا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ سبھی ازواج مطہرات نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رضاعت (یعنی بڑے کی رضاعت) کو دلیل بنا کر ان کے پاس (یعنی کسی بھی عورت کے پاس) جایا جائے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم اس رخصت کو عام رخصت نہیں سمجھتے، یہ رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص سالم کے لیے دی تھی، اس رضاعت کو دلیل بنا کر ہم عورتوں کے پاس کوئی آ جا نہیں سکتا اور نہ ہی ہم عورتوں کو دیکھ سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 7 (1454)، سنن ابن ماجہ/النکاح 37 (1947)، (تحفة الأشراف: 18274)، مسند احمد (6/312) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3327
اردو حاشہ: مذکورہ دونوں حدیثوں میں نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات کے نظریے کا اظہار ہے اور جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کا موقف یہ تھا کہ یہ ایک خاص حکم ہے جس پر اس قسم کے خصوصی حالات میں عمل کرنا جائز ہے جس سے حضرت سہلہؓ کو سابقہ پیش آیا تھا۔ امام ابن تیمیہ اور دیگر بہت سے علماء بھی خصوصی حالات میں رضاعت کبیر کے قائل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3327