اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا مفضل، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة:" إن هذا البلد حرام، حرمه الله عز وجل، لم يحل فيه القتال لاحد قبلي، واحل لي ساعة من نهار، فهو حرام بحرمة الله عز وجل". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ:" إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَامٌ، حَرَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، لَمْ يَحِلَّ فِيهِ الْقِتَالُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُحِلَّ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”یہ شہر (مکہ) حرام ہے اور اسے اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے، اس میں لڑائی مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوئی۔ صرف میرے لیے ذرا سی دیر کے لیے جائز کی گئی، لہٰذا یہ اللہ عزوجل کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام (محترم و مقدس) ہے“۔
هذه مكة حرمها الله يوم خلق السموات والأرض لم تحل لأحد قبلي لا لأحد بعدي أحلت لي ساعة من نهار وهي ساعتي هذه حرام بحرام الله إلى يوم القيامة لا يختلى خلاها لا يعضد شجرها لا ينفر صيدها لا تحل لقطتها إلا لمنشد وكان رجلا مجربا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2878
´مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال کی حرمت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”یہ شہر (مکہ) حرام ہے اور اسے اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے، اس میں لڑائی مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوئی۔ صرف میرے لیے ذرا سی دیر کے لیے جائز کی گئی، لہٰذا یہ اللہ عزوجل کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام (محترم و مقدس) ہے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2878]
اردو حاشہ: مکہ مکرمہ میں قتال کرنا قطعاً جائز نہیں ہے، نبیﷺ کو مختصر وقت کے لیے قتال کی اجازت دی گئی تھی، پھر بعد میں قیامت کے لیے اس میں قتال کو حرام قرار دے دیا گیا، لہٰذا اب کسی صورت میں بھی مکہ مکرمہ میں قتال کرنا درست نہیں، ہاں اگر خارجی دشمن حملہ آور ہو تو ارض مقدسہ کا دفاع کرنا ضروری ہے، حدود حرم میں حدود کا نفاذ مختلفہ فیہ مسئلہ ہے جس کی وضاحت آئندہ اوراق میں آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2878