Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
111. بَابُ : تَحْرِيمِ الْقِتَالِ فِيهِ
باب: مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2878
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ:" إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَامٌ، حَرَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، لَمْ يَحِلَّ فِيهِ الْقِتَالُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُحِلَّ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: یہ شہر (مکہ) حرام ہے اور اسے اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے، اس میں لڑائی مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوئی۔ صرف میرے لیے ذرا سی دیر کے لیے جائز کی گئی، لہٰذا یہ اللہ عزوجل کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام (محترم و مقدس) ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2877 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2878 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2878  
اردو حاشہ:
مکہ مکرمہ میں قتال کرنا قطعاً جائز نہیں ہے، نبیﷺ کو مختصر وقت کے لیے قتال کی اجازت دی گئی تھی، پھر بعد میں قیامت کے لیے اس میں قتال کو حرام قرار دے دیا گیا، لہٰذا اب کسی صورت میں بھی مکہ مکرمہ میں قتال کرنا درست نہیں، ہاں اگر خارجی دشمن حملہ آور ہو تو ارض مقدسہ کا دفاع کرنا ضروری ہے، حدود حرم میں حدود کا نفاذ مختلفہ فیہ مسئلہ ہے جس کی وضاحت آئندہ اوراق میں آئے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2878   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2877  
´مکہ کے احترام و تقدس کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ شہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، لہٰذا یہ اللہ کی حرمت کی سبب سے قیامت تک حرمت والا رہے گا، نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں گے، نہ اس کے شکار بدکائے جائیں گے، نہ وہاں کی کوئی گری پڑی چیز اٹھائے گا سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے اور نہ وہاں کی ہری شاخ کاٹی جائے گی، اس پر ابن عباس رضی اللہ عن [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2877]
اردو حاشہ:
(1) اس شہر یعنی جو اب شہر بن چکا ہے ورنہ تحریم کے وقت تو شہر نہ تھا۔
(2) حرم قرار دیا یعنی فیصلہ فرما لیا تھا اگرچہ لوگوں کو اس بات کا علم بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی ہوا۔ گویا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا تھا اور اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا، لہٰذا تحریم کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے۔ پہلی حقیقتاً دوسری مجازاً۔
(3) کانٹے دار درخت یعنی خود رو جنھیں کوئی لگاتا نہیں۔ باقی رہے وہ درخت جو پھل دار ہوں یا جنھیں بیج ڈال کر لگایا گیا ہو، اسی طرح فصلیں وغیرہ، تو انھیں کاٹا جا سکتا ہے اور پھل توڑ کر کھائے جا سکتے ہیں۔
(4) نہ بھگایا جائے یعنی شکار کے لیے اس کا پیچھا نہ کیا جائے اور اس سے بالکل تعرض نہ کیا جائے حتیٰ کہ سائے میں بیٹھے جانور کو سائے سے بھی نہ اٹھایا جائے۔
(5) اعلان کرتا رہے یعنی ہمیشہ اعلان ہی کرے۔ اپنے استعمال میں نہ لائے ورنہ حرم کی خصوصیت نہیں رہے گی۔ احناف کے نزدیک حرم کے لقطہ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ صرف ایک سال ہی اعلان کا حکم ہے۔ عام لقطہ کی طرح یہاں خصوصی ذکر صرف تاکید اور تنبیہ کے لیے ہے کہ کوئی سستی نہ کرے۔ پہلی بات زیادہ قوی ہے۔
(6) اذخر مرچ کے پودے کی بالکل ہم شکل ایک قسم کی گھاس ہے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت رہتی تھی، جلانے کے لیے، بچھانے کے لیے وغیرہ، اس لیے اس کے کاٹنے کی اجازت دے دی گئی۔
(7) مگر اذخر اس سے معلوم ہوا کہ بعض دفعہ رسول اللہﷺ اجتہاد کر کے حکم جاری فرما دیتے تھے اگر وہ درست نہ ہوتا تو وحی نازل ہو جاتی وگرنہ وہ حکم ثابت رہتا۔ دیگر حضرات اسے بھی وحی پر محمول کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2877   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1833  
1833. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ کو قابل احترام قراردیا ہے۔ یہ مجھے سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا۔ اب نہ تو اس کی سبز گھاس کاٹی جائے، نہ اس کا کوئی درخت توڑا جائےاور نہ اس کا شکار ہی خوفزدہ کیا جائے، نیز اس کی گری پڑی چیز کو بھی نہ اٹھایا جائے ہاں، اس کے متعلق اعلان کرنے والا اسے اٹھا سکتا ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس کی خوشبو دار گھاس کو مستثنیٰ کر دیجئے کیونکہ وہ سناروں کے لیے اور قبروں میں استعمال ہوتی ہے آپ نے فرمایا: خوشبو دار گھاس اس سے مستثنیٰ ہے۔ حضرت عکرمہ نے کہا: جانتے ہو شکار کو خوفزدہ کرنے کے کیا معنی ہیں؟وہ یہ ہے کہ شکار کو سائے سے بھگا کر خود اس جگہ بیٹھا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1833]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حرم محترم کا مقام یہ ہے کہ جس میں کسی جانور تک کو بھی ستانا، اس کو اس کے آرام کی جگہ سے اٹھا دینا، خود اس جگہ پر قبضہ کر لینا یہ جملہ امور حرم شریف کے آداب کے خلاف ہیں۔
ایام حج میں ہر حاجی کا فرض ہے کہ وہاں دوسرے بھائیوں کے آرام کا ہر وقت خیال رکھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1833   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2090  
2090. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قراردیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے یہ حلال نہ ہوااور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف(دن کی)ایک گھڑی حلال ہوا، لہٰذا اس کی گھاس کو نہ اکھاڑاجائے اور نہ اس کا درخت ہی کاٹا جائے۔ اس کا شکاربھی نہ بھگایا جائے اور نہ وہاں کی گری پڑی کسی چیز ہی کو اٹھایا جائے۔ ہاں وہ اٹھاسکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے۔ " حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہمارے سناروں اور گھروں کی چھتوں کے لیے اذخر کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا: "ہاں اذخر کی اجازت ہے۔ "(راوی حدیث)حضرت عکرمہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ شکار کے بھگانے سے کیا مراد ہے۔؟وہ یہ ہے کہ اسے سائے سے ہٹا کر خود وہاں پڑاؤ کرلے۔ عبدالوہاب نے خالد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے(اذخر کی اجازت دیجیے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2090]
حدیث حاشیہ:
یعنی بجائے چھتوں کے عبدالوہاب کی روایت میں قبروں کا ذکر ہے۔
عرب لوگ اذخر کو قبروں میں بھی ڈالتے اور چھت بھی اس سے پاٹتے وہ ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔
عبدالوہاب کی روایت کو خو دامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں نکالا ہے۔
روایت میں سناروں کا ذکر ہے، اسی سے اس پیشہ کا درست ہونا ثابت ہوا۔
سنار جو سونا چاندی وغیرہ سے عورتوں کے زیور بنانے کا دھندا کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2090   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1833  
1833. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ کو قابل احترام قراردیا ہے۔ یہ مجھے سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا۔ اب نہ تو اس کی سبز گھاس کاٹی جائے، نہ اس کا کوئی درخت توڑا جائےاور نہ اس کا شکار ہی خوفزدہ کیا جائے، نیز اس کی گری پڑی چیز کو بھی نہ اٹھایا جائے ہاں، اس کے متعلق اعلان کرنے والا اسے اٹھا سکتا ہے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس کی خوشبو دار گھاس کو مستثنیٰ کر دیجئے کیونکہ وہ سناروں کے لیے اور قبروں میں استعمال ہوتی ہے آپ نے فرمایا: خوشبو دار گھاس اس سے مستثنیٰ ہے۔ حضرت عکرمہ نے کہا: جانتے ہو شکار کو خوفزدہ کرنے کے کیا معنی ہیں؟وہ یہ ہے کہ شکار کو سائے سے بھگا کر خود اس جگہ بیٹھا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1833]
حدیث حاشیہ:
حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ حرم میں کسی شکار کو خوفزدہ کرنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اسے جان سے مار ڈالا جائے۔
حضرت عکرمہ نے اس کے معنی یہ کیے ہیں:
اسے تلف کرنے اور ہر قسم کی تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے، یہاں ادنیٰ سے اعلیٰ تک تنبیہ کرنا مقصود ہے۔
حضرت عطاء اور حضرت مجاہد نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
شکار کو بھگا دینے میں کوئی حرج نہیں۔
ہاں، قتل تک نوبت نہیں آنی چاہیے۔
بہرحال جمہور کے نزدیک حرم میں شکار کو خوفزدہ کرنا ناجائز ہے، خواہ وہ ہلاک ہو یا نہ ہو۔
اگر اس کے خوفزدہ کرنے سے وہ ہلاک ہو گیا تو اس کا تاوان دینا ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1833   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2090  
2090. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قراردیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے یہ حلال نہ ہوااور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف(دن کی)ایک گھڑی حلال ہوا، لہٰذا اس کی گھاس کو نہ اکھاڑاجائے اور نہ اس کا درخت ہی کاٹا جائے۔ اس کا شکاربھی نہ بھگایا جائے اور نہ وہاں کی گری پڑی کسی چیز ہی کو اٹھایا جائے۔ ہاں وہ اٹھاسکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے۔ " حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہمارے سناروں اور گھروں کی چھتوں کے لیے اذخر کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا: "ہاں اذخر کی اجازت ہے۔ "(راوی حدیث)حضرت عکرمہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ شکار کے بھگانے سے کیا مراد ہے۔؟وہ یہ ہے کہ اسے سائے سے ہٹا کر خود وہاں پڑاؤ کرلے۔ عبدالوہاب نے خالد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے(اذخر کی اجازت دیجیے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2090]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے پیشۂ زرگری کا جواز ملتا ہےاگرچہ یہ حضرات بہت سے ناجائز کام بھی کرتے ہیں اور پالش کے نام سے زائد رقم بٹورتے ہیں۔
حالانکہ پالش کرنے سےسونے کا وزن کم ہوجاتا ہے اور یہ لوگ پالش کا اضافی وزن سونے میں ڈالتے ہیں، اس کے بعد جب انھیں وہی زیور فروخت کریں تو رتی فی ماشہ کی شرح سے کٹوتی کرکے صافی وزن نکالتے ہیں۔
ایسے کاموں سے گناہ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ پیشہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
پہلی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ پیشہ ور شخص سے فائدہ لینا جائز ہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔
آخر میں پیش کردہ تعلیق کو خود ہی امام بخاری نے کتاب الجنائز،حدیث: 1349 میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ ہر وحشی جانور انسان کو دیکھ کر دور ہی سے نفرت کرتا ہے۔
یہ تنقیر انسان کے بس میں نہیں جس پر اسے گناہ گار کہا جاسکے۔
ہاں اگر زیادتی انسان کی طرف سے ہو کہ اس جانور کو سایہ دار درخت سے بھگا کر خود وہاں پڑاؤ کرے تو اس سے مکہ کی حرمت پامال ہوگی۔
غالباً اسی نکتے کی وجہ سے حضرت عکرمہ نے تنقیر کی تفسیر بیان کی ہے۔
(صحیح البخاری،الجنائز،حدیث: 1349)
والله اعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2090