مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3579
´پاجامہ پہننے کا بیان۔` سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے ہم سے پاجامے کا مول بھاؤ (سودا) کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3579]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1)(سراويل) کا ترجمہ شلوار یا پاجامہ دونوں طرح صحیح ہے کیونکہ یہ ایک ہی لباس ہے جس کی بناوٹ میں فرق ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺکا شلوار خریدنا یا اسے خرید نے کا ارادہ ظاہر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جائز لباس ہے البتہ کسی صحیح حدیث نبی ﷺکے پاجامہ پہننے کا ذکر نہیں۔
(3) مرد کے لیے شلوار پہننا جائز ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے۔ : ”جسے (احرام باندھتے وقت) تہبند میسر نہ ہو وہ سراویل (شلوار یا پاجامہ) پہن لے۔ (سنن ابن ماجة، المناسك، باب سراويل والخفين للمحرم إذا لم يجد إزار أو نعلين، حديث: 2931) اگر احرام کی حالت میں مجبوری کی صورت میں مرد شلوار پہن سکتا ہے تو عام دنوں میں شلوار یا پاجامہ پہننا بالا ولیٰ جائز ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3579