´عورتوں کونصیحتیں`
«. . . وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ - [14] - أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرجل الحازم من إحداكن قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَان عقلهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تَصِلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .» ”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقرہ عید یا عیدالفطر میں عیدگاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس سے آپ کا گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ صدقہ و خیرات کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تم دوزخ میں زیادہ جانے والی ہو۔
(یعنی عورتیں زیادہ تر دوزخ میں داخل ہوں گی۔) ان عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عورتیں کس وجہ سے دوزخ میں زیادہ تر داخل ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم لعن و طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی نافرمانی اور ناشکری بہت کرتی ہو، دین و عقل کی کمی تم لوگوں سے زیادہ کسی میں نہیں دیکھی ہے کہ تم سب سے زیادہ بےعقل بھی ہو اور تم لوگوں کا دین بھی ناقص ہے کہ ہوشیار اور سمجھدار آدمی کی عقل کو کھو دیتی ہو۔
“ ان عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے نصف گواہی کے برابر نہیں ہے
(یعنی شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے)“ ان عورتوں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا جس وقت عورت ماہواری کی حالت میں ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزہ رکھتی ہے؟
“ ان عورتوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہ ان کے دین کی کمی کا سبب ہے۔
“ . . .
“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 19] تخریج الحدیث: [صحیح بخاری 304]،
[صحيح مسلم 2053] فقہ الحدیث ➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کو عورتوں پر بحیثیت مجموعی برتری حاصل ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ» ”مرد عورتوں پر نگراں ہیں۔
“ [سورة النساء: 34] ➋ نماز دین اسلام کا ایک
(یعنی دوسرا) بنیادی رکن ہے، چونکہ نماز عمل کا نام ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نماز اعمال دین
(یعنی ایمان) میں سے ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ» ”اور اللہ تمہارے ایمان
(یعنی نمازیں) ضائع نہیں کرے گا۔
“ [سورة البقرة:143] ➌ عورت ایام حیض میں نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ اس کے لئے دین کے یہ دونوں کام، اس حالت میں ممنوع ہیں۔ دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ایام حیض گزرنے کے بعد وہ روزوں کی قضا تو کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا؟ اس کا ذکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن والی نماز کے دوران میں عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا۔ دیکھئے:
[صحيح بخاري 1052، وصحيح مسلم 907/17، اضوء المصابيح 1482] تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر آدمی کو بہتر 72 حوریں اور سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد سے دو عورتیں ملیں گی۔ [مسند ابي يعلي بحواله النهاية فى الفتن والملاحم 1؍177 ح498 بتحقيقي، وتحقيق ثاني ح: 53 والمطولات للطبراني ح: 36/المعجم الكبير 25؍276]
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ ہوں گی۔
↰ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس کا راوی اسماعیل بن رافع ضعیف ہے۔
↰ حافظ ابن حجر نے کہا:
«ضعيف الحفظ» [تقريب التهذيب: 442] ↰ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«لا يصح» یہ صحیح نہیں ہے۔
[الكامل لابن عدي 1؍278 وسنده صحيح] ➎ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی ہے۔ یعنی ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ» ”پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں
(کی گواہی پیش کرو۔)“ [سورة البقره: 282] تنبیہ: جن امور کا تعلق خاص عورت سے ہے مثلاً بچے کو دودھ پلانا وغیرہ تو اس میں ایک عورت کی گواہی بھی مقبول ہے اور اسی طرح قبول روایت میں ایک ثقہ عورت کی گواہی مقبول ہے۔
➏ مسلمان کا مسلمان پر لعنت بھیجنا حرام ہے، اگرچہ جس پر لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شرابی پر کسی نے لعنت بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تلعنوه» ”اس پر لعنت نہ بھیجو۔
“ [صحيح البخاري: 6780] اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ متعین زندہ کافر پر بھی لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ اگر کافر مر جائے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہو کہ وہ کفر پر مرا ہے تو پھر اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے، جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کافروں پر لعنت بھیجنا بالاجماع جائز ہے۔ کسی متعین انسان کا نام لئے بغیر عام لعنت بھیجی جا سکتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی اور سودی پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے:
[سنن ابي داود 3478 وصحيح مسلم 1598، 1597]