حدثنا محمد بن عثمان الدمشقي، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن شرحبيل بن مسلم، عن شفعة، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو علي اللؤلئي: اراه وعلي ثوب مصبوغ بعصفر مورد، فقال: ما هذا؟، فانطلقت، فاحرقته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما صنعت بثوبك؟ فقلت: احرقته، قال: افلا كسوته بعض اهلك؟"، قال ابو داود: رواه ثور، عن خالد، فقال: مورد، وطاوس، قال: معصفر. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ شُفْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ اللُّؤْلُئِيُّ: أُرَاهُ وَعَلَيَّ ثَوْبٌ مَصْبُوغٌ بِعُصْفُرٍ مُوَرَّدٍ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟، فَانْطَلَقْتُ، فَأَحْرَقْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا صَنَعْتَ بِثَوْبِكَ؟ فَقُلْتُ: أَحْرَقْتُهُ، قَالَ: أَفَلَا كَسَوْتَهُ بَعْضَ أَهْلِكَ؟"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ثَوْرٌ، عَنْ خَالِدٍ، فَقَالَ: مُوَرَّدٌ، وَطَاوُسٌ، قَالَ: مُعَصْفَرٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا، اس وقت میں گلابی کسم سے رنگا ہوا کپڑا پہنے تھا آپ نے (ناگواری کے انداز میں) فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ تو میں نے جا کر اسے جلا دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”تم نے اپنے کپڑے کے ساتھ کیا کیا؟“ تو میں نے عرض کیا: میں نے اسے جلا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی کسی گھر والی کو کیوں نہیں پہنا دیا؟“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثور نے خالد سے مورد (گلابی رنگ میں رنگا ہوا کپڑا) اور طاؤس نے «معصفر»(کسم میں رنگا ہوا کپڑا) روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (4066)، (تحفة الأشراف: 8824) (ضعیف)»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ saw me. The version of Abu Ali al-Lula has: I think I wore a garment dyed with a reddish yellow colour. He asked: What is this? So I went and burnt it. The Prophet ﷺ said: What have you done with your garment? I replied: I burnt it. He said: Why did you not give it to one of your women to wear? Abu Dawud said: Thawr transmitted it from Khalid and said: "Pink (muwarrad)" while Tawus said: "Reddish yellow colour (mu'asfar)".
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4057
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف شفعة مستور وثقه ابن حبان وجھله ابن القطان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 144
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3603
´مردوں کے لیے پیلے کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم اذاخر ۱؎ کے موڑ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے، آپ میری طرف متوجہ ہوئے، میں باریک چادر پہنے ہوئے تھا جو کسم کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے“؟ میں آپ کی اس ناگواری کو بھانپ گیا، چنانچہ میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا، وہ اس وقت اپنا تنور گرم کر رہے تھے، میں نے اسے اس میں ڈال دیا، دوسری صبح میں آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ! چادر کیا ہوئی“؟ میں نے آپ کو ساری بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3603]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) عصفر کا رنگا ہوا کپڑا عورتوں کے لئے جائز ہے۔
(2) مردوں کو ایسا کپڑا پہننا منع ہے جو عورتوں کا لبا س سمجھا جاتا ہو۔
(3) جب نرم الفاظ میں تنبیہ کرنے سے بات مانی جائے تو سخت انداز سے تنبیہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
(4) صحابہ کرام ؓ کے دل میں ﷺکی عظمت و محبت اس قدر تھی کہ اشارتاً کہی ہوئی بات پر بھی وہ پوری مستعدی سے عمل کرتے تھے۔
(5) جب کسی کو عالم کی بات سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہو تو عالم کو چاہیے کہ وضاحت کردے کہ بات کا صحیح مطلب یہ تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3603
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4068
´لال رنگ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا، اس وقت میں گلابی کسم سے رنگا ہوا کپڑا پہنے تھا آپ نے (ناگواری کے انداز میں) فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ تو میں نے جا کر اسے جلا دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”تم نے اپنے کپڑے کے ساتھ کیا کیا؟“ تو میں نے عرض کیا: میں نے اسے جلا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی کسی گھر والی کو کیوں نہیں پہنا دیا؟۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثور نے خالد سے مورد (گلابی رنگ میں رنگا ہوا کپڑا) اور طاؤس نے «معصفر»(کسم میں رنگا ہوا کپڑا) روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4068]
فوائد ومسائل: زعفرانی اور عصفرکا رنگ عورتوں کی زینت کا حصہ ہے، اس لئے مردوں کو جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4068