عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے مروہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کی دھار سے کاٹے، (یا یوں ہے) میں نے آپ کو دیکھا کہ مروہ پر تیر کے پیکان سے آپ کے بال کترے جا رہے ہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں صرف اتنا ہے کہ ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کی دھار سے کاٹے“، اس جملے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا، مگر صحیح مسلم و دیگر کے الفاظ ”مروہ پر“ سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے تو عمرہ کے بعد مروہ پر بال کاٹنے کا کیا مطلب؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ عمرہ جعرانہ کا ہے نہ کہ حجۃ الوداع کا، جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے۔
Ibn Abbas said that Muawiyah reported to him I clipped some hair of the Prophet’s head with a broad iron arrowhead at Al Marwah; or (he said) I saw him that the hair of his head was clipped with a broad iron arrowhead at Al Marwah. The narrator Ibn Khallad said in his version “Muawiyah said” and not the word “reported”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1798
قال الشيخ الألباني: صحيح ق وليس عند خ قوله أو رأتيه وهو الأصح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1730) صحيح مسلم (1246)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1803
´حج قران کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ایک اعرابی کے تیر کی پیکان سے کترے۔ حسن کی روایت میں «لحجته»(آپ کے حج میں) ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1803]
1803. اردو حاشیہ: ➊ حضرت معاویہ نے یہ خدمت حج کے موقع پر نہیں بلکہ عمرہ جعرانہ کے موقع پر سر انجام دی تھی۔جیسے کہ سنن نسائی کی روایت میں «فی عمرتة» کی صراحت ہے۔ (سنن نسائی مناسک الحج حدیث:2990)اور حج کےموقع پر کی تعبیر یاتومجاز ہے یا وہم۔ واللہ اعلم . ➋ عمرے میں صفا مروہ کی سعی کے بعد آدمی بال کتروا کر حلال ہوتا ہے۔ جبکہ عورتوں کو ایک پورا برابر بال کاٹنا کافی ہوتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1803