سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
24. باب فِي الإِقْرَانِ
باب: حج قران کا بیان۔
حدیث نمبر: 1802
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ. ح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ خَلَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْمَعْنَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ،أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ، قَالَ:" قَصَّرْتُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ عَلَى الْمَرْوَةِ، أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصِّرُ عَنْهُ عَلَى الْمَرْوَةِ بِمِشْقَصٍ". قَالَ ابْنُ خَلَّادٍ: إِنَّ مُعَاوِيَةَ لَمْ يَذْكُرْ أَخْبَرَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے مروہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کی دھار سے کاٹے، (یا یوں ہے) میں نے آپ کو دیکھا کہ مروہ پر تیر کے پیکان سے آپ کے بال کترے جا رہے ہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 127 (1730) (إلی قولہ: ’’بمشقص‘‘)، صحیح مسلم/الحج 33 (1246)، سنن النسائی/الحج 50 (2738)، 183 (2990)، (تحفة الأشراف: 11423)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/96، 97، 98، 102) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں صرف اتنا ہے کہ ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کی دھار سے کاٹے“، اس جملے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا، مگر صحیح مسلم و دیگر کے الفاظ ”مروہ پر“ سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے تو عمرہ کے بعد مروہ پر بال کاٹنے کا کیا مطلب؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ عمرہ جعرانہ کا ہے نہ کہ حجۃ الوداع کا، جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق وليس عند خ قوله أو رأتيه وهو الأصح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1730) صحيح مسلم (1246)