عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا اور فتح مکہ میں آپ کے ساتھ موجود رہا، آپ نے مکہ میں اٹھارہ شب قیام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے اور فرماتے: ”اے مکہ والو! تم چار پڑھو، کیونکہ ہم تو مسافر ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 274 (الجمعة 39) (545)، (تحفة الأشراف: 10862)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/430، 431، 432، 440) (ضعیف)» (اس کے راوی ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس قسم کی ضعیف حدیثوں سے قصر کی مدت کی تحدید درست نہیں کیونکہ ان میں اس طرح کا چنداں اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اللہ کے رسول اگر مزید ٹھہرنے کا ارادہ کرتے تو نماز پوری پڑھتے اس بات کے لئے واضح ثبوت غزوہ تبوک کا وہ سفر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن تک قیام کیا اور برابر قصر کرتے رہے، اور غزوہ حنین میں چالیس روز تک قصر فرماتے رہے، نیز غازی کی مثال ایسے مسافر کی ہے جس کو اپنے سفر یا قیام کے بارے میں کوئی واضح بات نہ معلوم ہو۔
Narrated Imran ibn Husayn: I went on an expedition with the Messenger of Allah ﷺ, and I was present with him at the conquest. He stayed eighteen days in Makkah and prayed only two rak'ahs (at each time of prayer). And he said: You who live in the town must pray four; we are travellers.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1225
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (545) علي بن زيد بن جدعان ضعيف مشهور ولأصل الحديث شواهد كثيرة جدًا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 52
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 545
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔` ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی الله عنہ سے مسافر کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور میں نے ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر رضی الله عنہ کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان رضی الله عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یا آٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 545]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 545