Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابي داود
كتاب صلاة السفر
کتاب: نماز سفر کے احکام و مسائل
10. باب مَتَى يُتِمُّ الْمُسَافِرُ
باب: مسافر پوری نماز کب پڑھے؟
حدیث نمبر: 1229
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ وَهَذَا لَفْظُهُ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُ مَعَهُ الْفَتْحَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَمَانِي عَشْرَةَ لَيْلَةً لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، وَيَقُولُ:" يَا أَهْلَ الْبَلَدِ، صَلُّوا أَرْبَعًا فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کیا اور فتح مکہ میں آپ کے ساتھ موجود رہا، آپ نے مکہ میں اٹھارہ شب قیام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے اور فرماتے: اے مکہ والو! تم چار پڑھو، کیونکہ ہم تو مسافر ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 274 (الجمعة 39) (545)، (تحفة الأشراف: 10862)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/430، 431، 432، 440) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: اس قسم کی ضعیف حدیثوں سے قصر کی مدت کی تحدید درست نہیں کیونکہ ان میں اس طرح کا چنداں اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اللہ کے رسول اگر مزید ٹھہرنے کا ارادہ کرتے تو نماز پوری پڑھتے اس بات کے لئے واضح ثبوت غزوہ تبوک کا وہ سفر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن تک قیام کیا اور برابر قصر کرتے رہے، اور غزوہ حنین میں چالیس روز تک قصر فرماتے رہے، نیز غازی کی مثال ایسے مسافر کی ہے جس کو اپنے سفر یا قیام کے بارے میں کوئی واضح بات نہ معلوم ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف