(مروان کے بجائے) ابن فضیل نے ابو مالک اشجعی سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو اس (حوض) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے نبی!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تمہاری ایک نشانی ہو گی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سےایک گروہ کو زبردستی میرے پاس آنے سےروک دیا جائے گا، تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا او رکہے گا: کیا آپ جانتے ہیں انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا کام ایجاد کیے تھے؟“
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اس سے لوگوں کو ہٹاؤں گا۔ جیسے ایک مرد اپنے اونٹوں سے دوسرے انسان کے اونٹوں کو ہٹاتا ہے۔" انھوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) نے عرض کیا اے اللہ کے نبیؐ! کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں! تمھاری ایک نشانی ہوگی جو تمھارے سوا کسی میں نہیں ہوگی۔ تم میرے پاس وضو کے اثرات کی بنا پر روشن چہرے، چمک دار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سے ایک گروہ کو میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔ تو میں کہوں گا اے میرے رب! یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں تو مجھے ایک فرشتہ جواب دے گا۔ اور کیا آپ جانتے ہیں انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئے کام نکالے تھے۔"حدیث حاشیہ: فوائد ومسائلان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ آ پ کو علم کلی حاصل ہے یا آپ عالم الغیب ہیں وگرنہ وہ یہ سوال نہ کرتے کہ اتعرفنا؟ کیا آ پ ہمیں پہنچانیں گے اور نہ ہی آپ یہ جواب دیتے۔نعم لکم سیما لیست لا حد غیرکم،تمہاری ایک ایسی علامت ہوگی جو کسی اور میں نہیں ہوگی،علم کلی رکھنے والے کو کسی علامت یا نشانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔(حدیث کے جملہ اھل ت دری ما احدثوا بعدک کی بحث اس مفہوم کی آخری حدیث کے بعد آئے گی۔) Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) said: My people would come to me on the Cistern and I would drive away persons (from it) just as a person drives away other people's camels from his camels. They (the hearers) said: Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) , would you recognize us? He replied: Yea, you would have a mark which other people will not have. You would come to me with a white blaze on your foreheads and white marks on your feet because of the traces of ablution. A group among you would be prevented from coming to me, and they would not meet me, and I would say: O my Lord, they are my companions. Upon this an angel would reply to me saying: Do you know what these people did after you.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حضرت حذیفہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے، اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے اسی طرح (دوسرے)لوگوں کو ہٹاؤں گا، جس طرح آدمی اجنبی اونٹوں کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول! اور کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟آپ نے فرمایا:”ہاں، تم میرے پاس روشن چہرے اور چمکتے ہوئے سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤگے، یہ علامت تمہارے سوا کسی اور میں نہیں ہو گی۔“حدیث حاشیہ: مروان نے ابو مالک اشجعی سعد بن طارق سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میرا حوض عدن سے ایلہ تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے اور (اس کا پانی) برف سے زیادہ سفید اور شہد سے ملے دودھ سے زیادہ شیریں ہے اور اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، (یہ خالصتاً میری امت کے لیے ہے،اس لیے) میں (امت کے علاوہ دوسرے) لوگوں کو اس سے روکوں گا، جیسےآدمی اپنےحوض سے لوگوں کے اونٹوں کو روکتا ہے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول!کیا اس دن آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:”ہاں، تمہاری ایک علامت ہو گی جو دوسری کسی امت کی نہیں ہو گی، تم وضو کے اثر سے چمکتے ہوئے چہرے اور ہاتھ پاؤں کے ساتھ میرے پاس آؤ گے۔“حدیث حاشیہ: (مروان کے بجائے) ابن فضیل نے ابو مالک اشجعی سے،انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو اس (حوض) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے نبی!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:”ہاں، تمہاری ایک نشانی ہو گی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سےایک گروہ کو زبردستی میرے پاس آنے سےروک دیا جائے گا، تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا او رکہے گا: کیا آپ جانتے ہیں انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا کام ایجاد کیے تھے؟“ حدیث حاشیہ: حضرت حذیفہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے، اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے اسی طرح (دوسرے)لوگوں کو ہٹاؤں گا، جس طرح آدمی اجنبی اونٹوں کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول! اور کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟آپ نے فرمایا:”ہاں، تم میرے پاس روشن چہرے اور چمکتے ہوئے سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤگے، یہ علامت تمہارے سوا کسی اور میں نہیں ہو گی۔“ حدیث حاشیہ: (مروان کے بجائے) ابن فضیل نے ابو مالک اشجعی سے،انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو اس (حوض) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے نبی!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:”ہاں، تمہاری ایک نشانی ہو گی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سےایک گروہ کو زبردستی میرے پاس آنے سےروک دیا جائے گا، تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا او رکہے گا: کیا آپ جانتے ہیں انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا کام ایجاد کیے تھے؟“حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم595٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)247.01٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)365٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)247.01٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)547٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)247.01٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام582 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے“ (المدثر 71 اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں۔ مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔ نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔