صالح بن کیسان نے حارث (بن فضیل) سے، انہوں نے جعفر بن عبد اللہ بن حکم سے، انہوں نے عبد الرحمٰن بن مسور سے، انہوں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام) ابو رافع سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ نے مجھ پر پہلے کسی امت میں جتنے بھی نبی بھیجے، ان کی امت میں سے ان کے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے جوان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی اتباع کرتے تھے، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشیں بن جاتے تھے۔ وہ (زبان سے) ایسی باتیں کہتے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور ایسے کا م کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہ دیا گیا تھا، چنانچہ جس نے ان (جیسے لوگوں) کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے (لیکن) اس سے پیچھے رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں۔“ ابو رافع نے کہا: میں نے یہ حدیث عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سنائی تو وہ اس کو نہ مانے۔ اتفاق سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی (مدینہ) آ گئے اور وادی قتاۃ (مدینہ کی وادی ہے) میں ٹھہرے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی ان کی عیادت کے لیے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ میں ان کے ساتھ چلا گیا ہم جب جاکر بیٹھ گیا تو میں نےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی جس طرح میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کوسنائی تھی۔ صالح بن کیسان نےکہا: یہ حدیث ابو رافع سے (براہ راست بھی) اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جو نبی بھی مجھ سے پہلے کسی امت میں بھیجا، تو اس کے کچھ حواری اور لائق ساتھی ہوتے تھے جو اس کے طریقے اور حکم پر چلتے تھے، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے نالائق پسماندگان، ان کے جانشین ہوتے تھے، جو ایسی بات کہتے تھے جو خود نہیں کرتے تھے (لوگوں کو اچھا کام کرنے کو کہتے تھے اور خود وہ کام نہیں کرتے تھے یا کرنے کے جو کام، وہ نہیں کرتے تھے۔ ان کے متعلق لوگوں کو کہتے تھے کہ ہم کرتے ہیں، گویا اپنا تقدس اور اپنی بزرگی قائم رکھنے کے لیے جھوٹ بھی بولتے تھے) اور جن کاموں کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ان کو کرتے تھے (یعنی اپنے نبی کی سنتوں اور اس کے اوامر واحکام پرتو عمل پیرا نہ تھے مگر معصیات اور بدعات جن کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ان کے (دلدادہ تھے، ان کو خوب کرتے تھے)، تو جس نے ان کے خلاف اپنے دست وبازو سے جہاد کیا وہ مومن ہے، اور جس نے (بدرجۂ مجبوری) ان کے خلاف صرف زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، اور جس نے (زبان سے عاجز رہ کر) صرف دل سے ان کے خلاف جہاد کیا، یعنی دل میں ان سے نفرت کی اور ان کے خلاف غیظ و غضب رکھا، تو وہ بھی ایمان دار ہے، لیکن اس کے بغیر رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ ابو رافع کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر ؓ کو سنائی تو انھوں نے اس کو نہ مانا، اتفاق سے عبداللہ بن مسعود ؓ بھی آگئے، اور وادی قناۃ (مدینہ کی ایک وادی ہے) میں ٹھہرے۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے ان کی عیادت کے لیے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا، میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ ہم جب جا کر بیٹھ گئےتو میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نےمجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی جیسے میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کو سنائی تھی۔ صالح بن کیسان نے کہا یہ حدیث ابو رافع سے اسی طرح بیان کی گئی ہے۔ (مقصد یہ ہے کہ ابو رافع نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود ؓ کے واسطے کے بغیر براہِ راست بیان کی ہے)