8. باب الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَيُؤْمِنُوا بِجَمِيعِ مَا جَاءَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَصَمَ نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهَا وَوُكِّلَتْ سَرِيرَتُهُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَقِتَالِ مَنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ أَوْ غَيْرَهَا مِنْ حُقُوقِ الْإِسْلَامِ وَاهْتِمَامِ الْإِمَامِ بِشَعَائِرِ الْإِسْلَامِ
8. باب: جب تک لوگ «لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» نہ کہیں ان سے لڑنے کا حکم۔
Chapter: The command to fight the people until they say "La ilaha illallah Muhammad Rasul-Allah", and establish Salat, and pay the Zakat, and believe in everything that the prophet (saws) brought. Whoever does that, his life and his wealth are protected except by its right, and his secrets are entrusted to Allah, the most high. Fighting those who withhold Zakat or other than that is one of the duties of Islam and the Imam should be concerned with the Laws of Islam
● صحيح البخاري | 6924 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● صحيح البخاري | 2946 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله فقد عصم مني نفسه وماله إلا بحقه وحسابه على الله |
● صحيح البخاري | 7285 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● صحيح البخاري | 0 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● صحيح مسلم | 124 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● صحيح مسلم | 125 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● جامع الترمذي | 2607 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله ومن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● جامع الترمذي | 2606 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها منعوا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله |
● سنن أبي داود | 2640 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها منعوا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله |
● سنن أبي داود | 1556 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3975 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3976 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها فقد عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3092 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3977 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3978 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3979 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قالها فقد عصم مني نفسه وماله إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3980 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها |
● سنن النسائى الصغرى | 3093 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني نفسه وماله إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 2445 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3981 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها منعوا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3983 | عبد الرحمن بن صخر | نقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوا لا إله إلا الله حرمت علينا دماؤهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3095 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها |
● سنن النسائى الصغرى | 3094 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3097 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قالها فقد عصم مني نفسه وماله إلا بحقه وحسابه على الله |
● سنن ابن ماجه | 3927 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله |
● سنن ابن ماجه | 71 | عبد الرحمن بن صخر | أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث71
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 71]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ کی راہ میں جنگ کرنا مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ ہے جس کا مقصد انسانوں کو غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر صرف اللہ کی عبادت پر قائم کرنا ہے۔
(2)
کسی شخص کے اسلام میں واقعی داخل ہو جانے کا ثبوت تین چیزیں ہیں:
توحید و رسالت کا اقرار کرنا،
نماز باقاعدی سے ادا کرنا
اور اسلام کے مالی حق یعنی زکاۃ کی ادائیگی کرنا۔
(3)
مذکورہ بالا آیات اور حدیث میں اسلام کے صرف تین ارکان کا ذکر کیا گیا ہے۔ (اقرار شہادتین، نماز اور زکاۃ)
اس کی وجہ یہ ہے کہ شہادتین کے بغیر تو اسلام میں داخل ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
نماز ایسی اجتماعی عبادت ہے جو ہر مسلمان پر ہر حال میں ادا کرنا فرض ہے، اس لیے اسے اسلام اور کفر کے درمیان امتیازی علامت قرار دیا گیا ہے اور زکاۃ اگرچہ صرف مال داروں پر فرض ہے لیکن اسلامی حکومت دولت مندوں سے اس کی وصولی اور ناداروں میں اس کی تقسیم کا جس طرح اہتمام کرتی ہے، اس بنا پر یہ بھی مسلم اور غیر مسلم میں واضح امتیاز کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ زکاۃ صرف مسلمانوں سے لی جاتی ہے اور مسلمانوں ہی میں تقسیم کی جاتی ہے۔
(4)
اس حدیث میں دو ارکان (روزہ اور حج)
کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ روزہ ایک پوشیدہ عبادت ہے اگر ایک شخص بغیر روزہ رکھے اپنے آپ کو روزے دار باور کرانا چاہے تو اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔
اور حج اول تو سب مسلمانوں پر فرض ہی نہیں، دوسرے صاحب استطاعت افراد پر بھی زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔
علاوہ ازیں جس قوم کے خلاف جنگ کی جا رہی ہو وہ اگر روزہ رکھنے اور حج کرنے کا اقرار بھی کریں تو اس کے عملی اظہار کے لیے انہیں خاص مہینوں کا انتظار کرنا پڑے گا، لہذا جنگ کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ایسے کاموں سے قائم کرنا حکمت کے منافی ہے۔
واللہ أعلم.
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 71
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2606
´جب تک لوگ لا إلہ الا اللہ کہنے نہ لگ جائیں اس وقت تک مجھے ان سے جہاد کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، مگر کسی حق کے بدلے ۱؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے“ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2606]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیا جائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنا دیں،
مثلاً کسی نے کسی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے۔
2؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک آفاقی اورعالمگیر مذہب ہے،
اس کا مقصد دنیا سے تاریکی،
گمرا ہی اورظلم وبربریت کا خاتمہ ہے،
ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنا ہے،
دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگالے اس کی جان مال محفوظ ہے،
البتہ جرائم کے ارتکاب پراس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے،
وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا،
کسی مسلمان کو ناجائز قتل کردینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا،
یہ بھی معلوم ہواکہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہوگا،
اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2606
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2640
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہ دینے لگ جائیں، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہو گئے، سوائے اس کے حق کے (یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا) اور ان کا حساب اللہ پر ہو گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2640]
فوائد ومسائل:
1۔
اسلام بنی نوع انسان کے لئے امن سلامتی کا دین ہے۔
اس کی دعوت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کے اس دنیا میں کائنات کے خالق ومالک کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔
اور نہ کرنے دی جائے۔
اسی اصل بنیاد پرمنکرین سے حسب احوال وظروف قتال کا حکم ہے۔
جس کی معلوم ومعروف شرطیں اور آداب ہیں جواس کتاب الجہاد اور کتب فقہ اسلامی میں محفوظ ہیں۔
2۔
اگر کوئی قوم اسلام قبول کرنے پر راضی نہ ہو تو اس کو اہل اسلام کی اطاعت قبول کرنی ہوگی۔
اور جزیہ دینا ہوگا۔
3۔
اسلام میں اقرار توحید اور اقرار رسالت محمد رسول اللہ ﷺ کو مستلزم ہے۔
اس کے بغیر توحید کا اقرار قابل قبول نہیں، جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2640
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 124
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عِقَالٌ:
اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی رسی،
زانو بند۔
فوائد ومسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مدینہ منورہ سے دور رہنے والے قبائل جنہیں نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رفاقت کا زیادہ موقع نہیں ملا تھا اور اسلام کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے تھے،
یا محض مسلمانوں کی قوت وطاقت سے خوف کھا کر مسلمان ہوئے تھے وہ اسلام سے پھر گئے،
لیکن وہ لوگ جنہیں نبی اکرم ﷺ سے تعلیم وتربیت کا موقع ملا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے لمحات میسر آئے اور انہوں نے اسلام کو دل کی گہرائیوں سے سمجھ لیا ان کے دل میں اسلام کے بارے میں کوئی شک وشبہ پیدا نہیں ہوا وہ اسلام پر قائم رہے،
یہی لوگ اکثریت میں تھے اور تقریبا ہر قبیلہ میں کم وبیش موجود تھے۔
اسلام سےپھرنے والوں کے مختلف گروہ تھے (الف)
وہ لوگ جو اسلام سے بالکل مرتد ہو کر اپنے پہلے کفر کی طرف لوٹ گئے،
دین شعائر،
نماز،
زکاۃ اور دوسرے احکام شرعیہ کو ترک کر کے،
زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں کو اختیار کر لیا۔
(ب)
وہ لوگ جنہوں نے مدعیان نبوت کے فریب میں آکر ان کی جھوٹی نبوت کو تسلیم کر لیا۔
(ج)
وہ لوگ جو کنارہ کش ہو کر،
حالات کا انتظار کر نے لگے۔
(د)
وہ لوگ جو اسلام کے منکر نہیں تھے،
صرف زکاۃ کا انکار کرتے تھے کہ یہ صرف رسول اللہ ﷺ ہی وصول کر سکتے تھے،
اور ان میں سے بھی کچھ لوگ صرف خلیفہ کو زکاۃ ادا کرنے سے منکر تھے کہ ہم اپنے طور پر اپنے محتاجوں میں تقسیم کریں گے،
بلکہ بنویربوع کے لوگو ں نے تو صدقات اکٹھے کر کے،
خلیفہ کو دینا چاہا تھا۔
ان کے سردار،
مالک بن نویرہ نے ان کو روک دیا،
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا اختلاف اس چوتھے گروہ کے بارے میں تھا،
اور پھر یہ اختلاف بھی ختم ہو گیا۔
(2)
نماز اور زکاۃ اسلام کے ایسے دو بنیادی ارکان ہیں کہ اسلام کا قیام وبقا ان پر منحصر ہے،
اس لیے ان میں سے کسی ایک کا منکر کافر ہے بلکہ ضروریات دین،
جن چیزوں کا دین ہونا ہر خاص وعام کو معلوم ہے ان کا منکر کافر ہے۔
(3)
جو انسان کلمہ شہادت کا اقرار کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو تسلیم کرتا ہے تو گویا وہ پورے دین کو تسلیم کرتا ہے،
اس لیے اس کا مال وجان محفوظ ہوں گے اور دین کے احکام پرعمل پیرا ہونے کا وہ پابند ہوگا۔
اس لیے اگر کسی ایسی چیز کا ارتکاب کرے گا،
جس سے اس کا مال یا جان محفوظ نہ رہے سکتے ہوں،
تو اس کا محاسبہ ہوگا،
زکاۃ اگر ادا نہ کرے تو زبردستی لی جائے گی،
شادی شدہ ہو کر،
زنا کرے گا یا کسی کو ناحق قتل کرے گا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔
(4)
جو شخص کلمہ اسلام پڑھ کر ہمارے سامنے اپنے ایمان لانے کا اظہار کرتا ہے تو یہ دنیوی اور قانونی طور پر اس کو مسلمان تسلیم کر لیں گے اور اس کو مسلمانوں والے حقوق حاصل ہوں گے اور مسلمانوں کے فرائض کا وہ پابند ہوگا لیکن اگر یہ کام اس نے محض مسلمانوں سے ڈر کر یا کسی بد نیتی سے کیا ہے تو اللہ اس کا محاسبہ کرے گا،
ہم تو ظاہر کے پابند ہیں،
باطن کو عالم الغیب اور علیم بذات الصدور ذات ہی جانتی ہے۔
(5)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا:
(مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ،
وَالزَّكَاةِ)
جو نماز اور زکاۃ میں فرق اور امتیاز کرے گا،
ایک کو ادا کرے گا اور دوسری کا منکر ہوگا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت تھی جس میں جان ومال کی عصمت کو نماز اور زکاۃ پر موقوف کیا گیا ہے،
یہ روایت آگے آرہی ہے اور متفق علیہ ہے۔
(فتح الباری: 1/103)
اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جب رسول اللہ ﷺ نے دونوں یکساں اہمیت دی ہے تو پھر ان میں فرق کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے اور بعض تاریخی روایات میں اس روایت کے پیش کرنے کی تصریح موجود ہے۔
(الامارۃ والسیاسة: 1/17)
اس لیے کہ کہنا درست نہیں کہ شیخین کے سامنے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نہ تھی،
اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قیاس واستنباط سے کا م لینا پڑا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شبہ لاحق ہوا۔
(6)
الناس:
سے مراد،
صرف قریش مرد ہیں اس لیے کہا جاتا ہے (عامٌ أُريدَ به الخاصُ)
لفظ عام لیکن مراد خاص ہے یا (اختصَّ منه البعضُ)
عام لیکن دلائل کی روشنی میں اس کی تخصیص کر لی گئی یا الف لام عہد ذہنی کے لیے بے مراد قریش ہیں کیونکہ اہل کتاب اگرجزیہ ادا کر دیں تو ان سے لڑائی نہیں کی جائے گی ﴿حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾ (سورة التوبة: 29)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 124