مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4257
´توبہ کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندو! تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جس کو میں بچائے رکھوں، تو تم مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں معاف کر دوں گا، اور تم میں سے جو جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور وہ میری قدرت کی وجہ سے معافی چاہتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں، تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جس کو میں غنی (مالدار) کر دوں، تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں روزی دوں گا، اور اگر ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4257]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں۔
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! میں نے ظلم کواپنی ذات پر حرام کرلیا ہے اسے تمہارے درمیان بھی حرام قراردیا ہے۔
اس لئے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
میرے بندو! تم سب راہ بھولے ہوئے ہو۔
سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں۔
پس مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوں گا۔
میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں غذاعنایت کروں۔
پس مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھانا دوں گا۔
میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں (لباس)
پہناؤں۔
پس مجھ سے لباس مانگو میں تمھیں لباس پہناؤں گا۔
میرے بندو! تم رات دن غلطیاں کرتے ہو اور میں سب گناہ بخش دیتا ہوں۔
پس مجھ سے بخشش مانگو میں تمھیں بخش دوں گا۔
میرے بندو! تم بھی اس قابل نہیں ہوسکتے کہ میرا نقصان کرسکو اور تم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ مجھے کچھ فائدہ پہنچا سکو۔
میرے بندو! اگر تمہارے پہلے، پچھلے، انسان اور جن سب سے زیادہ متقی فرد جیسے دل والے بن جایئں تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں ہوگا۔
میرے بندو! اگر تمہارے پہلے، پچھلے، انسان اور جن سب سے زیادہ بدکارفرد جیسے دل و الے بن جایئں تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے، پہلے، انسان اور جن ایک میدان میں کھڑے ہوکر مجھ سے سوال کریں۔
اور میں ہر انسان کا سوال پورا کردوں تو اس سے میرے پاس (موجودہ خزانوں)
میں اتنی ہی کمی ہوگی۔
جتنی سوئی ڈبونے سے سمندر کی ہوتی ہے۔
میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں۔
جنھیں میں تمہارے لئے شمار کرتا (اور محفوظ رکھتا)
ہوں۔
پھر تمھیں وہ پورے پورے دے دوں گا۔ (ان کی جزا پوری دوں گا)
تو جسے بھلائی ملے وہ اللہ کا شکر اداکرے۔
اور جسے دوسری چیز پیش آئے وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرے۔ (صحیح مسلم، البر والصلة، الأدب، باب تحریم الظلم، حدیث: 2577)
(2)
بندے کو اللہ سے اُمید اور خوف کا تعلق رکھنا چاہیے۔
(3)
ہر ضرورت کو پوری کرنے والا اللہ ہی ہے۔
لہٰذا اس سےمانگنا چاہیے جس کے خزانے لا محدود ہیں۔
(4)
نیک بننے میں انسان کا اپنا فائدہ ہے۔
اور بُرا بننے میں اپنا نقصان ہے۔
ہم اللہ کا کچھ نہیں سنوارسکتے نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔
(5)
اللہ کی عظمت اور اپنی مائگی کا احساس انسان کو سیدھی راہ پر قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4257