حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلال ؓ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔
حدثني بأرجى عمل عملته في الإسلام فإني سمعت دف نعليك بين يدي في الجنة قال ما عملت عملا أرجى عندي أني لم أتطهر طهورا في ساعة ليل أو نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب لي أن أصلي
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6324
1
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے استنباط کرنا کہ اپنے اجتہاد سے کسی عبادت کا وقت مقرر کرنا جائز ہے، کیونکہ حضرت بلال نے دخول جنت کا یہ مرتبہ، اپنے اجتہاد اور استنباط سے حاصل کیا، درست نہیں ہے، کیونکہ شریعت جس کام کے لیے وقت مقرر نہیں کرتی، اس کے لیے وقت مقرر کرنا، درست نہیں ہے، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کی آپ نے خود تلقین فرمائی ہے یہ عمل حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے شروع نہیں کیا بلکہ آپ کی ترغیب و تحریص سے شروع کیا۔ جاہلیت کے دور میں لوگوں نے عتیرہ کے لیے رجب کا مہینہ مقرر کیا تھا، جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: عتیرہ درست ہے، اگر کوئی اس پر عمل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ماہ رجب کی تخصیص درست نہیں ہے، جس مہینہ میں بھی اس کی توفیق ہو کر لے اور لوگوں کو کھلا دے، جس سے ثابت ہوا، اپنی طرف سے وقت مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ حدیث کی وضاحت پیچھے گزر چکی ہے۔