الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3406
3406. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیلو کا پھل چن رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ”سیاہ سیاہ دانے تلاش کرو کیونکہ وہ اچھے اور عمدہ ہوتے ہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: آیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3406]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح ہے کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں داخل ہیں جنھوں نے بکریاں چرائی ہیں بلکہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ موسیٰ ؑ کو بکریاں چرانے کے دوران میں ہی نبوت عطا کی گئی۔
(السنن الکبری للنسائي: 396/6۔
طبع دارالکتب العلمیة، بیروت)
اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دنیا داروں اور متکبرین کو نبوت نہیں دیتا بلکہ تواضع وانکسار اختیار کرنے والوں اور بکریاں چرانے والوں کو نبوت سے نوازتا ہے۔
2۔
اس میں حکمت یہ ہے کہ منتشربکریوں کو جمع کر کے ایک نظم میں رکھنے سے امت کے مختلف افراد کو یکجا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
بہرحال تمام پیغمبروں کو بکریاں چرانے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ انھیں لوگوں کی نگہبانی کرنے کا طریقہ آجائے۔
(فتح الباري: 534/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3406
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5453
5453. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم مرظہران میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیلو کا پھل چن رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو خوب سیاہ ہو اسے توڑو کیونکہ وہ لذیذ ہوتا ہے۔“ آپ سے پوچھا گیا: کیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5453]
حدیث حاشیہ:
(1)
بکریاں چرانے میں بڑی بڑی حکمتیں پنہاں ہیں:
ایک یہ کہ دل میں غرور پیدا نہیں ہوتا، دوسرا دل میں شفقت اور ہمدردی کے جذبات امڈ آتے ہیں، تیسرے یہ کہ لوگوں کی قیادت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، چوتھے سیاسی امور میں ترقی حاصل ہوتی ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو پھل جنگلات میں ہوتے ہیں، اور ان کا کوئی مالک نہیں ہوتا، انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اہل ورع، یعنی متقی اور پرہیزگار لوگ ایسے پھلوں کو بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیہقی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ بدر کے موقع پر جمعہ کے دن پیش آیا جبکہ رمضان المبارک کے تیرہ دن باقی تھے۔
(دلائل النبوة للبیھقي، رقم: 1776، و فتح الباري: 713/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5453