ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے اپنے والد (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نے اپنے والد سے، جب وہ دشمن کا سامنا کر رہے تھے، سنا: وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے (ہوتے) ہیں۔" یہ سن کر ایک خستہ حال شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ابوموسیٰ! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود یہ فرماتے ہوئے سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ یہ سن کر وہ شخص واپس اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں تمہیں (الوداعی) سلام کہتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور تلوار لے کر بڑھا، اس سے شمشیر زنی کی یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔
ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ سے دشمن کے سامنے یہ کہتے ہوئے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ تلے ہیں۔“ تو ایک پراگندہ حالت آدمی کھڑا ہو کر پوچھنے لگا، اے ابو موسیٰ (عبداللہ بن قیس کی کنیت ہے) کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں، تو وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آ کر کہنے لگا، میں تمہیں سلام پیش کرتا ہوں پھر اپنی تلوار کی میان توڑ کر پھینک دی، پھر اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف چل پڑا، اور اس سے ضرب لگائی حتیٰ کہ قتل کر دیا گیا۔