ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی خبر لانے کے لئے بُسیسہ (خزرجی انصاری) رضی اللہ عنہ کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ دیکھے ابوسفیان کے (تجارتی) قافلے کی کیا صورتِ حال ہے۔ جس وقت وہ واپس آیا تو گھر میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں تھا،۔۔ (ثابت نے) کہا: مجھے انس رضی اللہ عنہ کا کسی ام المومنین کو مستثنیٰ کرنا معلوم نہیں۔۔ کہا: اس نے آ کر آپ کو ساری بات بتائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: "ہمیں کچھ (کرنا) مطلوب ہے، سو جس کے پاس سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو کر چلے۔" کچھ لوگ بالائی مدینہ میں (موجود) اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا: "نہیں، صرف وہی لوگ (ساتھ چلیں) جن کی سواریاں یہیں موجود ہوں۔" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب چل پڑے اور مشرکین سے پہلے "بدر" پہنچ گئے، مشرکین بھی آ پہنچے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شخص، جب تک میں اس کے پیچھے نہ ہوں، کسی چیز پر پیش قدمی نہ کرے۔" مشرکین قریب آ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس جنت کی طرف بڑھ جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہیں۔" کہا: (یہ سن کر) حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! جنت جس کا عرض آسمان اور زمین ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں۔" اس نے کہا: واہ واہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے یہ واہ واہ کس وجہ سے کہا؟" اس نے کہا: اللہ کے رسول! اس امید کے سوا اور کسی وجہ سے نہیں (کہا) کہ میں (بھی) جنت والوں میں سے ہو جاؤں، آپ نے فرمایا: "بلاشبہ تم اہل جنت میں سے ہو۔" حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانی شروع کیں، پھر کہنے لگے: اگر میں اپنی ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا تو پھر یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی (یعنی جنت ملنے میں دیر ہو جائے گی)، پھر انہوں نے، جو کھجوریں ان کے پاس تھیں، پھینکیں اور لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بسیسہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جاسوس بنا کر روانہ فرمایا تاکہ وہ ابوسفیان کے قافلہ کے حالات کا جائزہ لے، وہ واپس آیا تو میرے سوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا، ثابت کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کو مستثنیٰ کیا تھا، اس نے آپ کو واقعہ سنایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور خطاب فرمایا، اس میں کہا، ”ہمیں ایک مطلوب ہے، تو جس کی سواری گھر میں ہے وہ ہمارے ساتھ سوار ہو جائے“ تو کچھ لوگ آپ سے ان سواریوں کے بارے میں اجازت مانگنے لگے، جو مدینہ کے بالائی علاقہ میں تھیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہی لوگ نکلیں جن کی سواریاں موجود ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہو گئے، حتی کہ مشرکوں سے بدر میں پہلے پہنچ گئے اور مشرک بھی آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نہ بڑھے، حتیٰ کہ میں آگے ہوں“ مشرکین قریب آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس جنت کی طرف اٹھو، جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے۔“ عمیر بن حمام انصاری نے کہا، اے اللہ کے رسول! جنت جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ اس نے کہا، واہ، واہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تم واہ، واہ کلمہ تحسین کیوں کہہ رہے ہو؟“ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اس امید پر کہ میں بھی اس کے باشندوں میں داخل ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اہل جنت میں سے ہے۔“ تو اس نے اپنے ترکش سے چند کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگا، پھر کہا، اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ تو بہت طویل زندگی ہو گی اور وہ کھجوریں جو اس کے پاس تھیں، پھینک دیں، اور دشمن سے لڑنے لگا، حتیٰ کہ قتل کر دیا گیا۔