الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3394
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو بٹائی پر دینے سے روکتے تھے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملے، اور کہنے لگے: ابن خدیج! زمین کو بٹائی پر دینے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ رافع رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر سے کہا: میں نے اپنے دونوں چچاؤں سے سنا ہے اور وہ دونوں جنگ بدر میں شریک تھے، وہ گھر والوں سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3394]
فوائد ومسائل:
1۔
حق یہی ہے کہ دور نبوت خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایام عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہودیوں کو خیبر سے نکالے جانے کے وقت تک خیبر کی زمینیں اور باٖغات بٹائی پر ان یہودیوں ہی کو دیے جاتے رہے تھے۔
2۔
مزارعت سے ممانعت کی احادیث تنزیہ اور استحباب پر محمول ہیں۔
یا ان ممنوعہ صورتوں سے متعلق ہیں۔
جن کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔
علی الاطلاق مزارعت ممنوع ہوتی تو جلیل لقدر معروف صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمیعن یہ معاملہ ہرگز نہ کرتے۔
3۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن سے مزارعت کی اجمالی ممانعت مروی ہے۔
خود انہی سے یہ وضاحت بھی مروی ہے۔
کہ نقدی کے عوض زمین کرائے پر دینے کی ممانعت نہیں۔
4۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس عمل سے باز آجانا احتیاط وتقویٰ کی بنا پر تھا۔
اور انہیں حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجمل حدیث کا علم حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہوا تھا۔
5۔
بعض محدثین کا ان روایات کو مضطرب کہنا محل نظر ہے۔
احادیث واضح کردیتی ہیں کہ یہ اضطراب نہیں محض اجمال اورتفصیل کا فرق ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے۔
(إرواء الغلیل، بحث، حدیث: 1478)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3394