● صحيح البخاري | 2723 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبع حاضر لباد لا تناجشوا لا يزيدن على بيع أخيه لا يخطبن على خطبته لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستكفئ إناءها |
● صحيح البخاري | 2727 | عبد الرحمن بن صخر | عن التلقي أن يبتاع المهاجر للأعرابي تشترط المرأة طلاق أختها يستام الرجل على سوم أخيه نهى عن النجش عن التصرية |
● صحيح البخاري | 2160 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبتاع المرء على بيع أخيه لا تناجشوا لا يبع حاضر لباد |
● صحيح البخاري | 2162 | عبد الرحمن بن صخر | نهى عن التلقي أن يبيع حاضر لباد |
● صحيح البخاري | 2140 | عبد الرحمن بن صخر | نهى أن يبيع حاضر لباد لا تناجشوا لا يبيع الرجل على بيع أخيه لا يخطب على خطبة أخيه لا تسأل المرأة طلاق أختها لتكفأ ما في إنائها |
● صحيح البخاري | 2150 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الركبان لا يبع بعضكم على بيع بعض لا تناجشوا لا يبع حاضر لباد لا تصروا الغنم فمن ابتاعها فهو بخير النظرين بعد أن يحتلبها إن رضيها أمسكها وإن سخطها ردها وصاعا من تمر |
● صحيح مسلم | 3461 | عبد الرحمن بن صخر | لا يسم المسلم على سوم أخيه خطبة أخيه |
● صحيح مسلم | 3461 | عبد الرحمن بن صخر | لا يسم المسلم على سوم أخيه لا يخطب على خطبته |
● صحيح مسلم | 3442 | عبد الرحمن بن صخر | لا يخطب الرجل على خطبة أخيه لا يسوم على سوم أخيه لا تنكح المرأة على عمتها ولا على خالتها لا تسأل المرأة طلاق أختها لتكتفئ صحفتها ولتنكح فإنما لها ما كتب الله لها |
● صحيح مسلم | 3458 | عبد الرحمن بن صخر | نهى أن يبيع حاضر لباد يتناجشوا يخطب الرجل على خطبة أخيه يبيع على بيع أخيه لا تسأل المرأة طلاق أختها لتكتفئ ما في إنائها أو ما في صحفتها |
● صحيح مسلم | 3459 | عبد الرحمن بن صخر | لا تناجشوا لا يبع المرء على بيع أخيه لا يبع حاضر لباد لا يخطب المرء على خطبة أخيه لا تسأل المرأة طلاق الأخرى لتكتفئ ما في إنائها |
● صحيح مسلم | 3814 | عبد الرحمن بن صخر | نهى أن يستام الرجل على سوم أخيه |
● صحيح مسلم | 3824 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبع حاضر لباد |
● صحيح مسلم | 3813 | عبد الرحمن بن صخر | لا يسم المسلم على سوم أخيه |
● صحيح مسلم | 3823 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الجلب فمن تلقاه فاشترى منه فإذا أتى سيده السوق فهو بالخيار |
● صحيح مسلم | 3822 | عبد الرحمن بن صخر | يتلقى الجلب |
● صحيح مسلم | 3815 | عبد الرحمن بن صخر | لا يتلقى الركبان لبيع لا يبع بعضكم على بيع بعض لا تناجشوا لا يبع حاضر لباد لا تصروا الإبل والغنم فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها فإن رضيها أمسكها وإن سخطها ردها وصاعا من تمر |
● صحيح مسلم | 3816 | عبد الرحمن بن صخر | نهى عن التلقي للركبان يبيع حاضر لباد تسأل المرأة طلاق أختها عن النجش التصرية يستام الرجل على سوم أخيه |
● جامع الترمذي | 1134 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيع الرجل على بيع أخيه لا يخطب على خطبة أخيه |
● جامع الترمذي | 1222 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيع حاضر لباد |
● جامع الترمذي | 1221 | عبد الرحمن بن صخر | نهى أن يتلقى الجلب فإن تلقاه إنسان فابتاعه فصاحب السلعة فيها بالخيار إذا ورد السوق |
● سنن أبي داود | 3437 | عبد الرحمن بن صخر | نهى عن تلقي الجلب فإن تلقاه متلق مشتر فاشتراه فصاحب السلعة بالخيار إذا وردت السوق |
● سنن أبي داود | 2080 | عبد الرحمن بن صخر | لا يخطب الرجل على خطبة أخيه |
● سنن أبي داود | 3443 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الركبان للبيع لا يبع بعضكم على بيع بعض لا تصروا الإبل والغنم فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها فإن رضيها أمسكها وإن سخطها ردها وصاعا من تمر |
● سنن النسائى الصغرى | 3242 | عبد الرحمن بن صخر | لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه |
● سنن النسائى الصغرى | 4510 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيع الرجل على بيع أخيه لا يبيع حاضر لباد لا تناجشوا لا يزيد الرجل على بيع أخيه لا تسأل المرأة طلاق الأخرى لتكتفئ ما في إنائها |
● سنن النسائى الصغرى | 3243 | عبد الرحمن بن صخر | لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك |
● سنن النسائى الصغرى | 3241 | عبد الرحمن بن صخر | لا تناجشوا لا يبع حاضر لباد لا يبع الرجل على بيع أخيه لا يخطب على خطبة أخيه لا تسأل المرأة طلاق أختها لتكتفئ ما في إنائها |
● سنن النسائى الصغرى | 4506 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيعن حاضر لباد لا تناجشوا لا يساوم الرجل على سوم أخيه لا يخطب على خطبة أخيه لا تسأل المرأة طلاق أختها لتكتفئ ما في إنائها ولتنكح فإنما لها ما كتب الله لها |
● سنن النسائى الصغرى | 4501 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الركبان للبيع لا يبع بعضكم على بيع بعض لا تناجشوا لا يبيع حاضر لباد |
● سنن النسائى الصغرى | 4492 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الركبان للبيع لا تصروا الإبل والغنم من ابتاع من ذلك شيئا فهو بخير النظرين فإن شاء أمسكها وإن شاء أن يردها ردها ومعها صاع تمر |
● سنن النسائى الصغرى | 4505 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الجلب فمن تلقاه فاشترى منه فإذا أتى سيده السوق فهو بالخيار |
● سنن النسائى الصغرى | 3244 | عبد الرحمن بن صخر | لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه |
● سنن النسائى الصغرى | 4511 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيع حاضر لباد لا تناجشوا لا يزيد الرجل على بيع أخيه لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستكفئ به ما في صحفتها |
● سنن النسائى الصغرى | 4496 | عبد الرحمن بن صخر | نهى عن التلقي أن يبيع مهاجر للأعرابي عن التصرية النجش يستام الرجل على سوم أخيه تسأل المرأة طلاق أختها |
● سنن ابن ماجه | 2175 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيع حاضر لباد |
● سنن ابن ماجه | 2172 | عبد الرحمن بن صخر | لا يبيع الرجل على بيع أخيه لا يسوم على سوم أخيه |
● سنن ابن ماجه | 1867 | عبد الرحمن بن صخر | لا يخطب الرجل على خطبة أخيه |
● سنن ابن ماجه | 2178 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الأجلاب فمن تلقى منه شيئا فاشترى فصاحبه بالخيار إذا أتى السوق |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 506 | عبد الرحمن بن صخر | لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد |
● بلوغ المرام | 676 | عبد الرحمن بن صخر | نهى رسول الله ان يبيع حاضر لباد، ولا تناجشوا، ولا يبيع الرجل على بيع اخيه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2172
´نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا لگائے اور نہ اس کے دام پر دام لگائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
”بیع پر بیع“ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خریدنے والے سے کہے:
تونے جو چیز خریدی ہے واپس کردے، میں تجھےایسی ہی چیز اس سے کم قیمت پر دوں گا۔
یا بیچنے والے سے کہے:
جو چیز بیچی ہے واپس لےلو، میں تمہیں اس سے زیادہ قیمت دے دوں گا۔
یہ دونوں باتیں منع ہیں کیونکہ ایسی باتوں سے جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے۔
(2)
سودے پر سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز خرید رہا ہے، وہ کہتا ہے:
میں اتنی قیمت دوں گا۔
دوسرا آدمی اس سے زیادہ قیمت پیش کرنےلگے تا کہ پہلا آدمی دھوکا کھا کر زیادہ قیمت پر خرید لے۔
(3)
جب خریدار اور فروخت کار ایک قیمت پر متفق ہو جائیں تو تیسرے آدمی کو دخل دینا جائز نہیں، البتہ ان کا سودا طے نہ پا سکے اور بات ختم ہو جائے تو پھر تیسرا آدمی خریدار سے یا بیچنے والے سے بات کرسکتا ہے۔
(4)
ایسی حرکات سے اجتناب ضروری ہے جن سے مسلمانوں میں جھگڑے پیدا ہوں اور کسی کی حق تلفی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2172
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1221
´مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہرکی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جاملے تاکہ بھاؤکے متعلق بیان کرکے اس سے سامان سستے داموں خرید لے،
ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے،
چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازارکی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہوسکتا ہے،
اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1221
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3437
´تاجروں سے بازار میں آنے سے پہلے جا کر ملنا اور ان سے سامان تجارت خریدنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3437]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
راستے میں مال لانے والے سے مل کر سودا کرنے کا عموما مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔
کہ بازار سے کم قیمت پر خرید لیا جائے۔
اور بازار کا بھائو مالک کے علم میں ہی نہ آئے۔
یہ طریقہ تجارت کےآزادانہ طور پر جاری رہنے میں رکاوٹ ہے۔
مارکیٹ کے عوامل میں اس طرح کی مداخلت ممنوع ہے۔
دوسرے مسلمان بھائی کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
جو مذموم ہے۔
اس لئے ممانعت کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا کہ اگر راستے میں سودا طے ہو اور اس کے بعد بیچنے والے کو پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔
تو اسے بیع واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3437