علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا ”بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔“ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔)“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» ”اذخر کے سوا“ کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ”ہمزہ“ اور ”خا“ کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 604
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا ”بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔“ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔)“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» ”اذخر کے سوا“ کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ”ہمزہ“ اور ”خا“ کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 604